Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 5
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ
فَاَمَّا : تو رہے ثَمُوْدُ : ثمود فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کہے گئے بِالطَّاغِيَةِ : اونچی آواز سے
سو ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیے گئے
(69:5) فاما ثمور فاہلکوا بالطاغیۃ : یہ جملہ کذبت پر معطوف ہے۔ فاما میں فاء سببیہ ہے اور اما سے مجمل کی تفصیل کی گئی ہے اصل کلام یوں تھا :۔ ثمود اور عاد نے قیامت کی تکذیب کی اس لئے تباہ کر دئیے گئے۔ ثمود تو طاغیہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے (اور عاد کو سخت ٹھنڈی یا سخت شور انگیز ہوا سے ہلاک کردیا گیا ۔ آیت 6) اھلکوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب اہلاک (افعال) مصدر سے ۔ وہ ہلاک کئے گئے۔ بالطاغیۃ۔ سخت کڑک سے۔ طاغیۃ غیر معمولی چیز سے بالاتر۔ قتادہ نے یہی فرمایا ہے اور یہی صحیح ہے۔ صورت یہ ہوئی کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک چیخ اتنی بلند ماری کہ سب مر کر رہ گئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آسمان کی طرف سے ایک ایسی چیخ پیدا ہوئی تھی جس میں ہر تڑک ہر کڑک اور ہر زمینی چیز کی آواز تھی۔ جس سے سینوں کے اندر دل پار ہ پارہ ہوگئے۔ اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ :۔ طاغیۃ، عافیۃ کی طرح مصدر ہے طغیان کا ہم معنی ہے یعنی ثمود اپنے طغیان (گناہوں میں حد سے آگے بڑھ جانے) کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ اس صورت میں باء سببیہ ہوگی۔ پیغمبر کی تکذیب کی، اونٹنی کو قتل کیا وغیرہ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ طاغیۃ میں تا مبالغہ کی ہے بڑا سرکش، اس سے مراد حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا قاتل قذار بن سالف ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ :۔ طاغیۃ میں تاء تانیث ہے (اور) اس سے مراد وہ جماعت ہے جس نے اونٹنی کے قتل پر اتفاق کیا اور قذار کو اس فعل پر آمادہ کیا تھا ۔ یہی جماعت پوری قوم کی تباہی کا سبب بنی تھی۔ یہ تاویل یعنی طاغیۃ کو مصدر کہنا یا جماعت مراد لینا یا صرف قذار مراد لینا اور تاء کو مبالغہ کے لئے قرار دینا آئندہ آیت کے مناسب نہیں ہے کیونکہ آئندہ آیت میں فرمایا ہے :۔ فاھلکو بریح کہ عاد کو طوفان ہوا سے ہلاک کیا گیا (یعنی ذریعہ ہلاکت بیان فرمایا ہے باعث ہلاکت بیان نہیں فرمایا۔ پس طاغیۃ سے مراد بھی ذریعہ ہلاکت یعنی ہولناک چیخ ہونی چاہیے۔ (تفسیر مظہری) ۔
Top