Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 5
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ
فَاَمَّا : تو رہے ثَمُوْدُ : ثمود فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کہے گئے بِالطَّاغِيَةِ : اونچی آواز سے
تو ثمود ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے ہلاک کردیئے گئے۔
’طاغیۃ‘ کا مفہوم: فرمایا کہ ان میں سے ثمود تو ’طَاغِیَۃٌ‘ سے ہلاک کر دیے گئے۔ ’طَاغِیَۃٌ‘ کے معنی ہیں وہ شے جو اپنے حدود و قیود سے متجاوز ہو جائے۔ اس سورہ میں اس بارش کو جس نے قوم نوح کو غرق کیا ’طَغَا الْمَآءُ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوموں کو سزا ان کے رویہ کی مناسبت سے دیتا ہے، جب کوئی قوم طغیان کی روش اختیار کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کی انہی چیزوں میں سے، جو انسان کی نفع رسانی کے لیے مسخر ہیں، کسی چیز کو اس کے خلاف طغیان پر ابھار دیتا ہے جو ’طَاغِیَۃٌ‘ بن کر اس کو ہلاک کر دیتی ہے۔ ثمود بھی، جیسا کہ ’کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاہَا‘ (الشمس ۹۱: ۱۱) سے واضح ہے اپنے رب کے خلاف طغیان میں مبتلا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک آفت (طاغیۃ) مسلط کر دی۔ یہ آفت کیا تھی؟ اس کی کوئی وضاحت یہاں نہیں ہے لیکن قرآن کے مختلف مقامات میں اس سے متعلق جو اشارات ہیں سورۂ ذاریات کی تفسیر میں ہم نے وہ بیان کر دیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کی تباہی صاعقہ کے ذریعہ سے ہوئی جو سرما کے دھاریوں والے بادلوں کے اندر سے نمودار ہوئی۔ اگرچہ سرما کے بادل اور ان کے ساتھ کڑک دمک کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہے ان کو قوموں کے لیے قیامت بنا دے۔ اس زمانے میں سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے اور بظاہر انسان نیچر کی بہت سی قوتوں کو مسخر کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے لیکن آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ساری سائنس اور تمام سائنس دانوں کی بے بسی ظاہر کر دیتا ہے۔
Top