Urwatul-Wusqaa - Al-Haaqqa : 5
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ
فَاَمَّا : تو رہے ثَمُوْدُ : ثمود فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کہے گئے بِالطَّاغِيَةِ : اونچی آواز سے
پس ثمود تو ایک سخت (دہشت ناک) آواز سے ہلاک کردیئے گئے
پس ثمود تو ایک سخت آواز سے ہلاک کردیئے گئے 5 ؎ (طاغیۃ) نافرمانی۔ حد سے نکل جانے والی آواز یہ یا تو مصدر ہے اس صورت میں اس کے معنی خدا کی نافرمانی میں حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں یا صفت ہے یعنی حد سے بڑھ جانے والی۔ اس صورت میں طغیان سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مونث ہوگا۔ امام فخر الدین رازی (رح) تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں (طاغیۃ) کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ اول یہ کہ (طاغیۃ) ایسا واقعہ ہے جو شدت و قوت میں حد سے بڑھ گیا ہو اور کہا جاتا ہے کہ (طاغیۃ) کسی محذوف کی صفت ہے اور محذوف کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔ بعض محذوف صحیحہ کو مانتے ہیں گویا وہ ایسی چنگھاڑ تھی جو بہت سی چنگھاڑوں سے قوت و شدت میں بڑھی ہوئی تھی اور بعض نے محذوف رجفۃ تسلیم کیا ہے اور بعض نے (صاعقۃ) بجلی کی کڑک تھی جو حد سے بہت بڑھی ہوئی تھی اور علاوہ ازیں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں ثمود کی ہلاکت کے سلسلہ میں جو عذاب ان کو دیا گیا اس کو کہیں (الرجفۃ) کہیں (الصیحۃ) اور کہیں (الصاعقۃ) کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے اور زیر نظر آیت میں (الطاغیۃ) کا لفظ بھی آگیا اور اس لئے دوسرے سارے الفاظ اس کی صفت تسلیم کر لئے گئے اور صحیح یہی ہے کہ اس عذاب پر یہ سب نام لئے جاتے ہیں اور لئے جاسکتے ہیں اور ان کی تعبیرات بھی الگ الگ سمجھی جاسکتی ہے اگرچہ مراد سب کی ایک اور صرف ایک ہے۔
Top