Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِیْ : میں رَيْبٍ : شک مِمَّا : سے جو نَزَّلْنَا : ہم نے اتارا عَلَىٰ عَبْدِنَا : اپنے بندہ پر فَأْتُوْا : تولے آؤ بِسُوْرَةٍ : ایک سورة مِنْ ۔ مِثْلِهِ : سے ۔ اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو شُهَدَآءَكُمْ : اپنے مدد گار مِنْ دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد عربی ﷺ پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اس طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو
(23 ۔ 24): اسلام کے بڑے دو ہی جز ہیں۔ ایک توحید دوسرے تسلیم رسالت اول آیت میں توحید الٰہی کا ذکر تھا اس آیت میں اللہ کے رسول کی رسالت کی تسلیم کا حکم ہے اور رسول کے بچے ہونے کی دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ قرآن قریش کی زبان میں اترا ہے اور مکہ میں دس برس تک برابر قرآن اترتا رہا۔ اور قریش کو اپنی فضاحت و بلاغت کا بھی بڑا دعویٰ تھا اور ان کو ایک سورة قرآن کی مانند بنا کر لانے کو کہا بھی گیا مگر سوا عاجز ہوجانے کے اور کچھ ان سے نہ ہوسکا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ نبی برحق ہیں۔ اور جو کلام ان پر اترتا ہے وہ بیشک کلام الٰہی ہے کیوں کہ انسان اور جنات سب مل کر اس جیسا کلام بنانے سے عاجز ہیں۔ اس پر بھی ان نبی کے برحق ہونے اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے سے جو شخص شخص و شبہ میں رہے گا وہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچانے کی فکر کرلے آوے۔ مسند اور امام احمد صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ دوزخ کی آگ کی حرارت دنیا کی آگ سے انہتر 69 حصہ بڑھ کر ہے کسی جیتے آدمی کو دنیا میں آگ میں ڈال دیا جائے تو ایک دم بھی بھی اس کی برداشت نہ ہوگی۔ جو لوگ توحید الٰہی اور تسلیم رسالت میں کوتاہی کرتے ہیں معلوم نہیں پورے ستر حصے حرارت والی آگ برداشت کروڑوں برس ان سے کیوں کر ہوگی۔ نعوذ باللہ منہا یہ جو فرمایا کہ { اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ } یعنی آگ منکروں کے لئے تیار کی جا چکی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ اس وقت تیار موجود ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دوزخ کو خاص قیامت کے دن پیدا کیا جاوے گا وہ غلطی پر ہیں۔ سوا اس آیت کے ان کی غلطی اور آیتوں اور حدیثوں سے بھی نکلتی ہے۔
Top