Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِیْ : میں رَيْبٍ : شک مِمَّا : سے جو نَزَّلْنَا : ہم نے اتارا عَلَىٰ عَبْدِنَا : اپنے بندہ پر فَأْتُوْا : تولے آؤ بِسُوْرَةٍ : ایک سورة مِنْ ۔ مِثْلِهِ : سے ۔ اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو شُهَدَآءَكُمْ : اپنے مدد گار مِنْ دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اگر تم اس چیز کی جانب سے شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو لاؤ اس کے مانند کوئی سورة ، اور بلالو اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو
’شہید‘ کا مفہوم: اُدْعُوْا شُہَدَآءَ کُمْ: شھید، قوم کے اس لیڈر، ترجمان اور نمائندہ کو کہتے ہیں، جو اہم مواقع پر اس کی ترجمانی اور نمائندگی کرتا ہے اور اس کا حمایتی بن کر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ حمایتی انسانوں میں سے بھی ہو سکتے تھے اور اہل عرب کے اعتقاد کے مطابق جنوں میں سے بھی ہو سکتے تھے۔ عرب جاہلیت میں شاعروں اور خطیبوں کی بڑی عزت و عظمت تھی کیونکہ یہی لوگ تمام اہم مواقع پر قومی وقار کے محافظ بن کر کھڑے ہوتے تھے۔ مشرکین عرب یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک جن ہوا کرتا ہے جو اس کو شعر الہام کرتا ہے۔ چنانچہ وہ قرآن کے متعلق بھی یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ بھی اسی قسم کے الہام کا کرشمہ ہے۔ ان کے انہی خیالات کی بنا پر ان سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر تم قرآن کو کسی انسان یا جن کی گھڑی ہوئی چیز سمجھتے ہو تو اپنے ان حمایتیوں کی مدد سے اس کے مانند ایک ہی سورہ پیش کرو، اگر یہ تمہارے حمایتی اس نازک موقع پر بھی، جب کہ تمہارے یہ آبائی دین کے ساتھ ساتھ خود ان کی خدائی بھی معرض خطرہ میں ہے، تمہاری مدد کے لیے نہ اٹھیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن خدائی کلام ہے اور تمہارے یہ سارے دیوی دیوتا بالکل بے حقیقت ہیں۔ قرآن میں دوسرے مواقع پر اس مضمون کی وضاحت بھی موجود ہے۔ مثلاً فرمایا: قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَآٰی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا (۸۸۔ بنی اسرائیل) (کہہ دو اگر تمام جن و انس متفق ہو کر بھی زور لگائیں کہ اس قرآن کی مثال پیش کریں تو اس کی مثال نہ پیش کر سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں) دوسری جگہ اس مضمون کی مزید وضاحت ہوئی ہے۔ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ہ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ (14-13 ھود) ’’اور اللہ کے سوا جن کو بھی تم بلا سکتے ہو اپنی مدد کے لیے بلا لو اگر تم سچے ہو، پس اگر تمہاری امداد کو نہ پہنچیں تو سمجھ لو کہ یہ چیز اللہ کے علم سے اتری ہے‘‘ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ: ’’اگر تم سچے ہو‘‘ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم قرآن کے بارے میں جو گمان رکھتے ہو اگر اس میں سچے ہو۔ دوسرا یہ کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ خدا کے سوا تمہارے کچھ اور حمایتی اور مددگار بھی ہیں۔ اگر فی الواقع تمہارے کچھ حمایتی اور مددگار موجود ہیں تو ان کو مدد کے لیے بلاؤ، اس سے زیادہ ان کی مدد طلب کرنے اور ان کے تمہاری مدد کے لیے اٹھنے کا کون سا موقع اہم ہو سکتا ہے۔ میر اپنا رجحان اس دوسرے مفہوم کی طرف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پہلے مفہوم پر بھی حاوی ہو جاتا ہے۔
Top