Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِیْ : میں رَيْبٍ : شک مِمَّا : سے جو نَزَّلْنَا : ہم نے اتارا عَلَىٰ عَبْدِنَا : اپنے بندہ پر فَأْتُوْا : تولے آؤ بِسُوْرَةٍ : ایک سورة مِنْ ۔ مِثْلِهِ : سے ۔ اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو شُهَدَآءَكُمْ : اپنے مدد گار مِنْ دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔
سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو (ُ لَا رَيْبَ) قرار دیا، اب فرمایا کہ (اس کتاب میں کوئی شک تو نہیں لیکن) اگر تم اس کے بارے میں کسی ادنیٰ سے شک میں بھی مبتلا ہو تو اس جیسی ایک سورت بنا کرلے آؤ۔ یہ چیلنج پہلے اس کتاب جیسی ایک کتاب لانے کا کیا گیا۔ [ بنی إسرائیل : 88 ] پھر اس جیسی دس سورتیں لانے کا۔ [ ہود : 13 ] پھر مکہ میں اس جیسی ایک سورت لانے کا چیلنج کیا گیا۔ [ یونس : 38 ] اب مدینہ میں یہ چیلنج دہرایا جا رہا ہے، کیونکہ سورة بقرہ مدنی ہے۔ پچھلی دو آیات میں شرک کی تردید اور توحید کی دعوت ہے۔ ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت ہے۔ عَبْدِنَا اگرچہ تمام بندے اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں مگر ”ہمارے بندے“ سے مراد ہمارا خاص بندہ ہے، جیسے : ”بیت اللہ“ اور ”ناقۃ اللہ“ اسے اضافت تشریفی کہتے ہیں۔ ہر زمانے میں جو چیز کمال کو پہنچی ہوئی تھی اس زمانے کے پیغمبر کو ایسا معجزہ دیا گیا جس کے سامنے انسانی کمال عاجز اور بےبس ہو، جیسے فرعون کے جادوگر اور عصائے موسیٰ ، اور عیسیٰ ؑ کے زمانے کے با کمال طبیب اور عیسیٰ ؑ کا مردوں کو زندہ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اہل عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا معجزہ عطا فرمایا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال سیکڑوں برس گزرنے کے باوجود نہ کوئی پیش کرسکا نہ کرسکے گا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (47 تا 51)۔
Top