Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
فِیْ
: میں
رَيْبٍ
: شک
مِمَّا
: سے جو
نَزَّلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَىٰ عَبْدِنَا
: اپنے بندہ پر
فَأْتُوْا
: تولے آؤ
بِسُوْرَةٍ
: ایک سورة
مِنْ ۔ مِثْلِهِ
: سے ۔ اس جیسی
وَادْعُوْا
: اور بلالو
شُهَدَآءَكُمْ
: اپنے مدد گار
مِنْ دُوْنِ اللہِ
: اللہ کے سوا
اِنْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
اگر تمہیں اس کلام کی سچائی میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم بھی اس کی سی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن جن کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو اگر تم سچے ہو
پوری انسانیت کے لیے ایک چیلنج : 53: کلمہ اسلام کے اجزائے ترکیبی دو ہیں۔ ایک توحید الٰہی ، دوسرے رسالت محمدی ﷺ ۔ توحید کا بیان اوپر کی دو آیتوں میں ہوچکا ہے اب دعوت تصدیق رسالت کی دی جارہی ہے اور پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے جو صرف قریش مکہ یا اہل عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ چیلنج بھی ایسا کہ کسی خاص وقت کے لیے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک جب تک انسان کو انسان کہا جاتا رہے گا یا انسان ، انسان رہے گا یہ چیلنج موجود رہے گا جس طرح نزول قرآن کے وقت تھا اب بھی ہے اور قیامت کے وقت تک بدستود رہے گا۔ وہ چیلنج کیا ہے ؟ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے قرآن کو خود بنا لیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر پیغمبر نے بنالیا ہے تو تم بھی ایک سورت ایسی بنا لائو ؟ اٹھو ! دیر نہ کرو ! اپنے سارے فصحا و بلغا کو اکھٹا کرلو ، نہیں نہیں تمام انسان اکھٹے ہوجائو ۔ اگر جنوں سے مدد لے سکتے ہو تو لے لو۔ پورا قرآن نہیں ، دس سورتیں نہیں صرف اور صرف ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو ۔ پہلا معجزہ قرآنی : قرآن کریم نے بار بار اس امر کا مطالبہ کیا ہے اور مخالفین و منکرین کو چیلنج پر چیلنج دیا ہے۔ کوئی شرط عائد نہیں کی۔ کوئی پابندی نہیں لگائی۔ کہا ہے تو صرف یہ کہا ہے کہ یا تو دعویٰ رسالت تسلیم کرلو اور مان لو کہ یہ کلام پیغمبر اسلام کا تصنیف شدہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے رسالت کا پیغام ہے یا پھر ایسا کلام تم بھی بنا کر پیش کر دو ۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا 0088 (بنی اسرائیل 17 : 88) ” اے پیغمبر اسلام ! اس بات کا اعلان کردو کہ اگر تمام انسان اور جِنّ اکھٹے ہو کر چاہیں کہ اس قرآن کی مانند کوئی کلام پیش کردیں تو کبھی پیش نہیں کرسکیں گے اگر ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو۔ “ ایک موقع پر یوں ارشاد ہوا : اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ 1ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 0013 (ھود 11 : 13) ” پھر کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آدمی یعنی پیغمبر اسلام نے قرآن اپنے جی سے گھڑ لیا ہے ؟ اے پیغمبر اسلام ! تو ان کو جواب دے دے کہ اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اس طرح کی دس سورتیں گھڑی ہوئی لاکر پیش کر دو اور اللہ کے سوا جس جس کوئی چاہو اپنی مدد کے لیے پکار سکتے ہو ، پکار لو۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوا : اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ 1ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 0038 (یونس 10 : 38) ” کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آدمی یعنی پیغمبر اسلام نے قرآن اپنے جی سے گھڑ لیا ہے ؟ اے پیغمبر اسلام ! تم ان کو جواب دے دو ۔ اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو تم بھی اس قرآن کریم کی ایک سورت کی مانند سورت بنا کر پیش کرو اور اللہ کے سوا جن جن ہستیوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو تم کو اجازت ہے بلا لو۔ “ آیت زیر نظر میں بھی یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک سورت بنا کرلے آئو لیکن سوال یہ ہے کہ جواب کس اعتبار سے مانگا جارہا ہے۔ عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت میں مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے اس میں شک نہیں کہ مسلمان تو ایک طرف خود معاندین اسلام بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی فصیح وبلیغ عبارت پیش کرنا غیر ممکن اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔ جب خود اہل زبان اس کی مثل لانے سے عاجز ہیں تو دوسروں کی کیا بات ہے ؟ قرآن کریم کا ارشاد کہ میں کیا ہوں ؟ قرآن کریم نے اپنی نسبت کہا ہے کہ وہ ” نور “ ہے۔ ” بصائر “ ہے۔ ” ہدی للناس “ ہے اس کا روئے سخن عالمگیر ہے۔ وہ تمام اقوام و امم عالم میں وحدت و جمعیت پیدا کرنے آیا ہے۔ اس کا مقصد اصلی ایک امتہ صالحہ اور مدنیت فاصلہ کا بقا و قیام ہے وہ تہذیب اخلاق ، تدبیر منزل ، سیاست مدن اور خلافت کبریٰ کی تعلیم دینے آیا ہے یہ اس کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس نے عرب کو زندہ جاوید قوم بنادیا۔ جس نے زناکاری ، شراب خوری ، قمار بازی اور صدہا جرائم کا آن واحد میں سرزمین عرب سے حرف غلط کی طرح محو و باطل کردیا۔ جس نے عرب کے جنگلیوں اور وحشیوں کو اللہ کا مقدس دست عمل بنادیا ، جو قیصرو کسریٰ کے خزائن کے مالک بنادیئے گئے ہیں اور یہ سب سے زیادہ حیرت انگیز اور محیرالعقول انقلاب عظیم صرف تئیس سال کے قلیل ترین زمانہ میں ہوا۔ کیا دنیا کی تاریخ ہمیں کوئی ایسی نظیر بتا سکتی ہے کہ کسی بڑے سے بڑے ریفارمر اور مصلح کو ایسی عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ یہ وہ حقائق ثابتہ ہیں جو تاریخ کے اوراق میں اب تک اپنی تابنا کی ودرخشندگی سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں یہ واقعات ہیں جن کو انسان اگر بھول جائیں تو ممکن ہے مگر نہ تو آسمان پر چمکنے والے ستارے فراموش کرسکتے ہیں اور نہ زمین کے رینگنے والے جانور اور سمندروں اور دریائوں میں تیرنے والی مچھلیاں ان کو بھلا سکتی ہیں اور نہ آسمان و زمین کے درمیان اڑنے والے پرندے۔ جو کچھ اوپر بیان ہوا یہ قرآن کریم کا اثر تھا۔ پس اگر مخالفین اسلام میں ہمت ہے تو وہ کوشش کر کے دیکھیں اپنے تمام اعوان و انصار اور اولیاء ال شیطان کی مدد سے ایسا قانون مرتب کر کے لائیں ۔ اگر تمام دنیا اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے تو پھر قرین عقل و انصاف یہی ہے کہ اس کتاب کریم کے سامنے سرنیاز جھکا دیں اور اپنی گردنیں خم کر کے بغیر کسی قسم کے بحث و مذاکرہ کے اس کو اپنا امام و پیشوا تسلیم کرلیں ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بد اخلاقی و بدکرداری کے دردناک انجام سے انہیں کوئی نجات نہ دلا سکے گا۔ ہمارے خیال میں یہاں وہ پیش اپنے اس سب سے بڑے وصف کو کر رہا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ جو ہدایتیں اور بصیرتیں میرے ایک ایک سورة کے اندر موجود ہیں اب اگر تم اپنی متحدہ کوشش اور جدوجہد سے بھی اس کے مقابلہ کی کوئی چیز پیش کرسکتے ہو تو لائو دکھائو۔ مِّنْ مِّثْلِهٖ 1۪ میں مثلیت کی تفسیر پر سب سے بہترین روشنی خود قرآن کریم ہی سے پڑتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ہُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَاۤ اَتَّبِعْهُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 0049 فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ 1ؕ (القصص 28 : 49 ، 50) ” اے پیغمبر اسلام ! تم ان سے کہو کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو کہ قرآن کریم اور تورات شریف ہدایت کے لیے آسمانی کتابیں نہیں ہیں تو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی کوئی دوسری کتاب لے آئو جو آسمانی ہو تاکہ میں اس کی پیروی کر کے ہدایت حاصل کرسکوں حالانکہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ یہ لوگ آپ کے اس چیلنج کا کوئی جواب دیں ؟ یقیناً ان سے اس کا کوئی معقول جواب نہیں بن پڑے گا تو پھر تم سمجھ لو کہ یہ ہٹ دھرم لوگ اپنی خواہشات کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ “ قرآن کریم ایک زندہ وجاوید معجزہ ہونے کی تشریح : گزشتہ اجمالی بیان کے بعد آپ کو یہ معلوم کرنا ہے کہ قرآن کریم کو کس بنا پر نبی کریم ﷺ کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا اعجاز کن کن وجوہ سے ہے اور کیوں ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ چودہ ، پندرہ سو برس کے عرصہ میں قرآن کریم کی زبردست تحدی یعنی چیلنج کے باوجود کوئی اس کی یا اس کے کسی ٹکڑے کی مثال پیش نہیں کرسکا یہ تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے۔ یہ دونوں باتیں طویل الذکر اور ذرا تفصیل طلب ہیں۔ وجوہ اعجاز قرآنی : پہلی بات کہ قرآن کریم کو معجزہ کیوں کہا گیا ؟ اور وہ کیا وجوہ ہیں جن کے سبب ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اس پر قدیم و جدید علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور ہر دور کے مفسرین نے اپنے اپنے طرز پر اس مضمون کو بیان کیا ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ چند ضروری چیزیں عرض کرتے ہیں۔ اعجاز قرآنی کی پہلی وجہ : اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب کس جگہ ، کس ماحول میں اور کس پر نازل ہوئی ؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب عامہ میں ایسی جامع بےنظیر کتاب تیار ہوسکے ، جو علوم اولین و آخرین کی جامع ، اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کرسکے ، جن میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست مملکت تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں۔ جس سر زمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لیے آپ کو ایک ریگستانی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی ، نہ اس ملک کی آب و ہوا کچھ ایسی خوشگوار ہے جس کے لیے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں ، نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو ، اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے ، جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، اور دور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت۔ اس پورے خطہ ملک میں کچھ شہر بڑے بھی نہیں ، چھوٹے چھوٹے گائوں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گزارنے والے انسان بستے ہیں ، اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا ، جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم وتعلیم کا کوئی چرچا نہیں ، نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم ، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے ، جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں ، وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ، ان کی ادنیٰ ادنیٰ چھوکریاں ایسے فصیح وبلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں۔ لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے ، جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا ، غرض نہ وہاں تعلیم و تعلّم کا کوئی سامان ہے ، نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگائو یا وابستگی ہے ، ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں ، مختلف اجناس مال کی درآمد بر آمد ان کا مشغلہ ہے۔ اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانے میں وہ ذات مقدس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے ، جس پر قرآن اترا ہے ، اب اس ذات مقدس کا حال سنئے : ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوگئے ، ابھی سات سال کی عمر بھی نہ تھی کہ والدہ کی بھی وفات ہوگئی ، آغوش مادر کا گہوارہ بھی نصیب نہ رہا ، شریف آباد و اجداد کی فیاضی اور بےمثل سخاوت نے اپنے گھر میں کوئی اندوختہ نہ چھوڑا تھا ، جس سے یتیم کی پرورش اور آئندہ زندگی کا سامان ہوسکے ، نہایت عسرت کی زندگی پھر ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں ، ان حالات میں آپ ﷺ نے پرورش پائی ، اور عمر کا ابتدائی حصہ گزارا جو تعلیم و تعلّم کا اصلی وقت تھا ، اس وقت اگر مکہ میں کوئی دارالعلوم یا اسکول و کالج بھی ہوتا تو بھی آپ ﷺ کے لیے اس سے استفادہ مشکل تھا ، مگر معلوم ہوچکا کہ وہاں سرے سے یہ علمی مشغلہ اور اس سے دلچسپی ہی کسی کو نہ تھی ، اسی لیے یہ پوری قوم عرب امیین کہلاتے تھے ، قرآن کریم نے بھی ان کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے ، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ آپ ﷺ ہر قسم کی تعلیم و تعلّم سے بیخبر رہے ، وہاں کوئی بڑا عالم بھی ایسا نہ تھا جس کی صحبت میں رہ کر یہ علوم حاصل کیے جاسکیں ، جن کا قرآن حامل ہے ، پھر قدرت کو تو ایک فوق العادۃ معجزہ دکھلانا تھا ، جو انبیاء کرام کے ساتھ خاص رکھا گیا تھا ، آپ ﷺ کے لیے خصوصی طور پر ایسے سامان ہوئے معمولی نوشت و خواند جو ہر جگہ کے لوگ کسی نہ کسی طرح سیکھ ہی لیتے ہیں آپ نے وہ بھی نہ سیکھیں ، امّی محض رہے ، کہ اپنا نام تک بھی نہ لکھ سکتے تھے ، عرب کا مخصوص فن شعر و سخن تھا ، جس کے لیے خاص خاص اجتماعات کئے جاتے اور مشاعرے منعقد ہوتے ، اور اس میں ہر شخص مسابقت کی کوشش کرتا تھا ، آپ ﷺ کو حق تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی تھی کہ ان چیزوں سے بھی دلچسپی نہ لی ، نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ لکھا ، نہ کسی ایسی مجلس میں شریک ہوئے۔ ہاں امّی محض ہونے کے ساتھ بچپن سے ہی آپ ﷺ کی شرافت نفس ، اخلاق فاضلہ ، فہم و فراست کے غیر معمولی آثار ، دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین شاہکار آپ ﷺ کی ذات مقدس میں ہر وقت مشاہدہ کئے جاتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب کے بڑے بڑے مغرور متکبر سردار آپ ﷺ کی تعظیم کرتے تھے ، اور سارے مکہ میں آپ ﷺ کو امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ یہ امی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں ، کسی دوسرے مقام کا سفر بھی نہیں کرتے ، جس سے یہ خیال پیدا ہوسکے کہ وہاں جا کر علوم حاصل کیے ہوں گے ، صرف مکہ سے شام کے کچھ تجارتی سفر ہوئے ، وہ بھی گنے چنے چند دن کے لیے جس میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس امی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گزرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا ، نہ کسی مکتب میں گئے ، نہ کسی مجلس میں کوئی نظم و قصیدہ ہی پڑھا ، ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگے جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم و فنون کے لحاظ سے محیرالقول کلام ہے ، اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے ، مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدی کی ، چیلنج دیا کہ کسی کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنالائے۔ اب ایک طرف قرآن کی یہ تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کو شکست دینے کے لیے اپنا مال جان ، اولاد ، آبرو ، سب گنوانے کو تیار ہیں ، مگر اتنا کام کرنے کے لیے کوئی جرات نہیں کرتا ، کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثال بنالے۔ فرض کرلیجئے کہ یہ کتاب بےمثال و بےنظیر نہ ہوتی ، جب بھی ایک امی محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجاز قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے لیے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے۔ اعجاز ِقرآنی کی دوسری وجہ : اب اعجاز قرآن کی دوسری وجہ دیکھئے ، یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے احکام ساری دنیا کے لیے آئے ، لیکن اس کے بلاواسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے ، جن کو اور کوئی علم و فن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحت و بلاغت ان کا فطری ہنر اور پیدائشی وصف تھا ، جس میں وہ اقوام دنیا سے ممتاز سمجھتے جاتے تھے ، قرآن ان کو مخاطب کر کے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمہیں میرے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شبہ ہے تو تم میری ایک سورت کی مثال بنا کر دکھلا دو ، اگر قرآن کی یہ تحدی (چیلنج) صرف اپنا حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی معارف و اسرار ہی کی حد تک ہوتی تو قوم امیین کے لیے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذرمعقول ہوتا ، لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے لیے متعلق تحدی نہیں کی ، بلکہ لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے ، اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے اقوام عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے ، اگر فی الواقع یہ کلام قدرت بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا تو بلغاء عرب کے لیے کیا مشکل تھا کہ ایک امی شخص کے کلام کی مثال بلکہ اس سے بہتر کلام فوراً پیش کردیتے ، اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کرسکتے تو قرآن نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنالائے ، مگر قرآن کے اس بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیور قوم پوری خاموش ہے ، چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرتی۔ عرب کے سرداروں نے قرآن اور اسلام کے مٹانے اور پیغمبر اسلام ﷺ کو مغلوب کرنے میں جس طرح اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگایا ، وہ کسی لکھے پڑھے آدمی سے مخفی نہیں ، شروع میں آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے گنے چنے رفقاء کو طرح طرح کی ایذائیں دے کر چاہا کہ وہ کلمہ اسلام کو چھوڑ دیں ، مگر جب دیکھا کہ ” یہاں وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے “ تو خوشامد کا پہلو اختیار کیا عرب کا سردار عتبہ ابن ربیعہ قوم کا نمائندہ بن کر آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ، اور عرب کی پوری دولت و حکومت اور بہترین حسن و جمال کی لڑکیوں کی پیشکش اس کام کے لیے کی کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں ، آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی چند آیتیں سنا دینے پر اکتفا فرمایا ، جب یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو جنگ و مقابلہ کے لیے تیار ہو کر قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت جو قریش عرب نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سردھڑ کی بازی لگائی ، جان ، مال ، اولاد ، آبرو ، سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار ہوئے ، یہ سب کچھ کیا ، مگر یہ کسی سے نہ ہوسکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا ، اور چند سطریں مقابلہ پر پیش کردیتا ، کیا ان حالات میں سارے عرب کا اس کے مقابلہ سے سکوت اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے۔ پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا ، بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں سب نے اس کے بےمثل ہونے کا اعتراف کیا ، اور جو ان میں سے منصف مزاج تھے انہوں نے اس اعتراف کا اظہار بھی کیا ، پھر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ، اور کچھ اپنی آبائی رسوم کی پابندی یا بنی عبد مناف کی ضد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے باوجود اعتراف کے محروم رہے ، قریش عرب کی تاریخ ان واقعات پر شاہد ہے ، میں اس میں سے چند واقعات اس جگہ بیان کرتا ہوں ، جس سے اندازہ ہوسکے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بےمثل ، بےنظیر ہونے کو تسلیم کیا ، اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا ، جب رسول اللہ ﷺ اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا ، اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ اب اطراف عرب سے حجاج آئیں گے ، اور رسول کریم ﷺ کا یہ کلام سنیں گے ، تو فریفتہ ہوجائیں گے اور غالب خیال یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں گے ، اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لیے قریش نے ایک اجلاس منعقد کیا ، اس اجلاس میں عرب کے بڑے بڑے سردار موجود تھے ، ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں ممتاز سمجھے جاتے تھے۔ سب نے ولید بن مغیرہ کو یہ مشکل پیش کی کہ اب اطراف ملک سے لوگ آئیں گے اور ہم سے محمد (a) کے متعلق پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں ؟ ہمیں آپ کوئی ایسی بات بتلائیے کہ ہم سب وہ ہی بات کہہ دیں ، ایسا نہ ہو کہ خود ہمارے بیانات میں اختلاف ہوجائے ، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ہی کہو کیا کہنا چاہیے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم سب یہ کہیں کہ محمد (a) معاذ اللہ مجنون ہیں ، ان کا کلام مجنونانہ بڑ ہے ، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ایسا ہرگز نہ کہنا ، کیونکہ یہ لوگ جب انکے پاس جائیں گے ، اور ان سے ملاقات و گفتگو کریں گے ، اور ان کو ایک فصیح وبلیغ عاقل انسان پائیں گے تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے ، پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم ان کو یہ کہیں کہ وہ ایک شاعر ہیں ، ولید نے اس سے بھی منع کیا ، اور کہا کہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو وہ شعر و شاعری کے ماہر ہیں ، انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہ شعر نہیں اور نہ آپ ﷺ شاعر ہیں ، نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ تمہیں جھوٹا سمجھیں گے ، پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ پھر ہم ان کو کاہن قرار دیں گے ، جو شیاطین و جنات سے سن کر غیب کی خبریں دیا کرتے ہیں ، ولید نے کہا یہ بھی غلط ہے ، کیونکہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو پتا لگ جائے گا کہ یہ کلام کسی کاہن کا نہیں ہے ، وہ پھر بھی تمہیں ہی جھوٹے سمجھیں گے ، اسکے بعد قرآن کے بارے میں جو ولید بن مغیرہ کے تاثرات تھے ان کو ان الفاظ میں بیان کیا : ” خدا کی قسم ! تم میں کوئی آدمی شعرو شاعری اور اشعار عرب سے میرے برابرواقف نہیں ، خدا کی قسم ! اس کلام میں خاص حلاوت ہے ، اور ایک خاص رونق ہے ، جو میں کسی شاعر یا فصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا۔ “ (خصائص کبریٰ مترجم) پھر ان کی قوم نے دریافت کیا کہ آپ ہی بتائیے پھر ہم کیا کریں ؟ اور ان کے بارے میں لوگوں سے کیا کہیں ؟ ولید نے کہا میں غور کرنے کے بعد کچھ جواب دوں گا ، پھر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو تم ان کو ساحر کہو ، کہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔ قوم اس پر مطمئن اور متفق ہوگئی ، اور سب نے یہی کہنا شروع کیا ، مگر خدا کا چراغ کہیں پھونکوں سے بجھنے والا تھا ؟ اطراف عرب کے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے ، اور اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا۔ (خصائص کبریٰ ) اسی طرح ایک قریشی سردار نضر بن حارث نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو خطاب کر کے کہا : ” اے قوم قریش ! آج تم ایک مصیبت میں گرفتار ہو کہ اس سے پہلے کبھی ایسی مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا کہ محمد (a) تمہاری قوم کے ایک نوجوان تھے ، اور تم سب ان کے اخلاق و عادات کے گرویدہ اور اپنی قوم میں ان کو سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ امانت دار جانتے اور کہتے تھے اب جب کہ ان کے سر میں سفید بال آنے لگے ، اور انہوں نے ایک بےمثل کلام اللہ کی طرف سے پیش کیا تو تم ان کو جادوگر کہنے لگے ، خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ، ہم نے جادوگروں کو دیکھا اور برتا ہے ، ان کے کلام سنے ہیں ، اور طریقوں کو سمجھا ہے ، وہ بالکل اس سے مختلف ہیں۔ اور کبھی تم ان کو کاہن کہنے لگے ، خدا کی قسم وہ کاہن بھی نہیں ، ہم نے بہت کاہنوں کو دیکھا اور ان کے کلام سنے ہیں ، ان کو ان کے کلام سے کوئی مناسبت نہیں۔ اور کبھی تم ان کو شاعر کہنے لگے ، خدا کی قسم وہ شاعر بھی نہیں ، ہم نے خود شعر ، شاعری کے تمام فنون کو سیکھا سمجھا ہے ، اور بڑے بڑے شعراء کے کلام ہمیں یاد ہیں ، ان کے کلام سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ، پھر کبھی تم ان کو مجنون بتاتے ہو ، خدا کی قسم ! وہ مجنون بھی نہیں ، ہم نے بہت سے مجنونوں کو دیکھا بھالا ، ان کی بکواس سنی ہے ، ان کے مختلف اور مختلط کلام سنے ہیں ، یہاں یہ بھی کچھ نہیں ، اے میری قوم تم انصاف کے ساتھ ان کے معاملے میں غور کرو ، یہ سرسری ٹال دینے کی چیز نہیں۔ “ (خصائص کبریٰ ص 114 ج 1) حضرت ابوذر ؓ صحابی فرماتے ہیں کہ میرا بھائی انیس ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گیا ، اس نے واپس آ کر مجھے بتلایا کہ مکہ میں ایک شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے ، میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ بھائی نے کہا کہ کوئی ان کو شاعر کہتا ہے ، کوئی کاہن بتلاتا ہے ، کوئی جادوگر کہتا ہے ، میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت سے واقف آدمی تھا ، اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ، ان کا کلام نہ شعر ہے نہ کہانت ہے ، نہ مجنونانہ کلمات ہیں ، بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے۔ ابوذر فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا ، اور مسجد حرام میں آکر پڑگیا تیس روز میں نے اس طرح گزارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا اس تمام عرصہ میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ کوئی ضعف محسوس کیا۔ (خصائص ص 116 ج 1) واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام بہت سنے ہیں ، اور کاہنوں کے کلمات اور حمیر کے مقالات بہت سنے ہیں ، محمد (a) کے کلام کی مثال میں نے آج تک کہیں نہیں سنی ، تم سب میری بات مانو ، اور آپ ﷺ کا اتباع کرو ، چناچہ فتح مکہ کے سال میں ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔ (خصائص ص 116 ج 1) اسلام اور آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے ، اور اس کے عجیب و غریب ، بےمثل و بےنظیر ، اثرات سے متاثر ہوتے تھے ، مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بےنظیر پاتے ہو تو اس کو قبول کیوں نہیں کرتے ؟ تو ابو جہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبد مناف میں اور ہمارے قبیلہ میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابلہ چلتارہا ہے ، وہ جس کام میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں ، اب جبکہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں تو اب وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں ، میں تو کبھی اس کا اقرار نہ کروں گا۔ (خصائص) خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے اور چیلنج پر صرف یہی نہیں کہ پورے عرب نے ہار مان لی اور سکوت کیا ، بلکہ اس کے بےمثل و بےنظیر ہونے اور اپنے عجز کا کھلے طور پر اعتراف بھی کیا ہے ، اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ سارا عرب بلکہ ساری دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہوجاتی۔ قرآن اور پیغمبر قرآن کے مقابلہ میں جان و مال ، اولاد و آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لیے تو وہ تیار ہوگئے ، مگر اس کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے دو سطریں اس کے مقابلے میں پیش کردیتا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے جاہلانہ اعمال و افعال کے باوجود منصف مزاج تھے۔ جھوٹ کے پاس نہ جاتے تھے ، جب انہوں نے قرآن کو سن کر یہ سمجھ لیا کہ جب درحقیقت اس قرآن کی مثل ہم نہیں لاسکتے تو محض دھاندلی اور کٹ حجتی کے طور پر کوئی کلام پیش کرنا اپنے لیے عار سمجھا ، کیونکہ وہ یہ بھی جانتے کہ ہم نے کوئی چیز پیش بھی کردی تو پورے عرب کے فصحاء و بلغاء اس امتحانی مقابلہ میں ہمیں فیل کردیں گے ، اور خواہ مخواہ رسوائی ہوگی ، اس لیے پوری قوم نے سکوت اختیار کیا ، اور جو زیادہ منصف مزاج تھے انہوں نے صاف طور پر قرار و تسلیم بھی کیا جس کے کچھ وقائع پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار اسعد بن زرارہ نے آنحضرت ﷺ کے چچا عباس ؓ کے سامنے اقرار کیا کہ : ” ہم نے خواہ مخواہ محمد (a) کی مخالفت کر کے اپنے رشتے ناتے توڑے ، اور تعلقات خراب کئے ، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں ، ہرگز جھوٹے نہیں ، اور جو کلام وہ لائے ہیں بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ “ (خصائص ص 116 ج 1) قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمی قیس بن نسیبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ سے قرآن سنا ، اور چند سوالات کئے جن کا جواب آنحضرت ﷺ نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے ، اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا : ” میں نے روم وفارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام سنے ہیں ، بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے ، حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں ، مگر محمد ﷺ کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا ، تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو۔ “ انہیں کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ “ (خصائص 116 ج 1) یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں جو آپ ﷺ کے معاملات سے یکسو اور غیر جاندار تھے ، بلکہ وہ لوگ جو ہر وقت ہر طرح رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا ، مگر اپنی ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پر نہ کرتے تھے۔ علامہ سیوطی (رح) نے خصائص کبریٰ میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل اور ابو سفیان اور اخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے اسلئے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ ﷺ سے قرآن سنیں ، ان میں ہر ایک علیحدہ علیحدہ نکلا ، ایک دوسرے کو خبر نہ تھی ، اور علیحدہ علیحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے ، تو اس میں ایسے محو ہوئے کہ ساری رات گزر گئی ، جب صبح ہوگئی تو سب واپس ہوئے۔ اتفاقاً راستہ میں مل گئے ، اور ہر ایک نے دوسرے کا قِصّہ سنا ، تو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے ، کہ تم نے یہ بری حرکت کی ، اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے ، کیونکہ اگر عرب کے عوام کو اس کی خبر ہوگئی تو وہ سب مسلمان ہوجائیں گے۔ یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے ، اگلی رات آئی تو پھر ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اٹھی کہ قرآن سنیں ، اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہر ایک نے قرآن سنا ، یہاں تک کہ رات گزر گئی ، اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے ، اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کیا ، مگر تیسری رات آئی تو پھر قرآن کی لذت و حلاوت نے انہیں چلنے اور سننے پر مجبور کردیا ، پھر پہنچے اور رات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے ، تو پھر راستہ میں اجتماع ہوگیا ، تو اب سب نے کہا کہ آئو آپس میں معائدہ کرلیں کہ آئندہ ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے ، چناچہ اس معائدہ کی تکمیل کی گئی ، اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ، صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اٹھائی ، اور پہلے ابو سفیان کے پاس پہنچا ، کہ بتلائو اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ، اس نے دبے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا ، تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی یہی رائے ہے ، اس کے بعد وہ ابو جہل کے پاس پہنچا ، اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد ﷺ کے کلام کو کیسا پایا ؟ ابوجہل نے کہا کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان اور بنو عبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے ، قوم کی سیادت و قیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں ، انہوں نے سخاوت و بخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کر دکھایا ، انہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے ، یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں۔ ان حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اٹھی کہ ہمارے میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے ، اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے ، اس لیے ہم نے تو یہ طے کرلیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے ، اور ہرگز ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ (خصائص ص 115 ج 1) یہ ہے قرآن کا وہ کھلا ہوا معجزہ جس کا دشمنوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے ، یہ تمام واقعات علامہ جلال الدین سیوطی (رح) نے خصائص کبریٰ میں نقل کئے ہیں۔ اعجاز قرآن کی تیسری وجہ : تیسری وجہ اعجاز قرآن کی یہ ہے کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں ، اور ہو بہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی ، مثلاً قرآن نے خبر دی کہ روم وفارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے ، لیکن ساتھ ہی یہ خبر دے دی کہ دس سال گزرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے۔ مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبر ؓ سے ہار جیت کی شرط کرلی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آگئے ، تو سب کو اپنی ہار ماننا پڑی ، اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط تھی ، وہ مال ان کو دینا پڑا ، رسول کریم ﷺ نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا ، کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا ، اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں دی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ اعجاز قرآن کی چوتھی وجہ : چوتھی وجہ اعجاز قرآن کی یہ ہے کہ اس میں پچھلی امتوں اور ان کی شرائع اور تاریخی حالات کا ایسا صاف تذکرہ ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے علماء یہود و نصاریٰ جو پچھلی کتابوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان کو بھی اتنی معلومات نہ تھیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے تو کبھی نہ کسی مکتب میں قدم رکھا نہ کسی عالم کی صحبت اٹھائی ، نہ کسی کتاب کو ہاتھ لگایا ، پھر یہ ابتداء دنیا سے آپ ﷺ کے زمانہ تک تمام اقوال عالم کے تاریخی حالات اور نہایت صحیح اور سچے سوانح اور ان کے شریعتوں کی تفصیلات کا بیان ظاہر ہے کہ بجز اس کے نہیں ہوسکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کا ہو ، اور اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ خبریں دی ہوں۔ اعجاز قرآن کی پانچویں وجہ : یہ ہے کہ اس کی متعدد آیات میں لوگوں کے دل میں چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئی اور پھر ان کے اقرار سے ثابت ہوگیا کہ وہ بات صحیح اور سچی تھی ، یہ کام بھی عالم الغیب والشہادۃ ہی کرسکتا ہے ، کسی بشر سے عادۃً ممکن نہیں ، مثلاً ارشاد قرآنی ہے : اِذْ ہَمَّتْ طَّآىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا 1ۙ (آل عمران 3 : 123) ” جب تمہاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ پسپا ہوجائیں۔ “ اور یہ ارشاد کہ : وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ 1ؕ (المجادلہ : 8) ” وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ “ یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کو انہوں نے کسی سے ظاہر نہیں کیا ، قرآن کریم نے ہی ان کا انکشاف کیا ہے۔ اعجاز قرآن کی چھٹی وجہ : چھٹی وجہ اعجاز قرآن کی ، وہ آیات ہیں جن میں قرآن نے کسی قوم یا فرد کے متعلق یہ پیش گوئی کی کہ وہ فلاں کام نہ کرسکیں گے ، اور پھر وہ لوگ باوجود ظاہری قدرت کے اس کام کو نہ کرسکے ، جیسے یہود کے متعلق قرآن نے اعلان کیا کہ اگر وہ فی الواقع اپنے آپ کو اللہ کے دوست اور ولی سمجھتے ہیں تو انہیں اللہ کے پاس جانے سے محبت ہونا چاہیے ، وہ ذرا موت کی تمنا کر کے دکھائیں اور پھر ارشاد فرمایا : وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا (البقرہ 2 : 95) ” وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرسکیں گے۔ “ موت کی تمنا کرنا کسی کے لیے مشکل نہ تھا ، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو قرآن کو جھٹلاتے تھے ، قرآن کے ارشاد کی وجہ سے ان کو تمنائے موت میں خوف و ہراس کی کوئی وجہ نہ تھی ، یہود کے لیے تو مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع بڑا غنیمت تھا کہ فوراً تمنائے موت کا ہر مجلس و محفل میں اعلان کرتے۔ مگر یہود ہو یا مشرکین زبان سے کتنا ہی قرآن کو جھٹلائیں ان کے دل جانتے تھے کہ قرآن سچا ہے ، اس کی کوئی بات غلط نہیں ہو سکتی ، اگر موت کی تمنا ہم اس وقت کریں گے تو فوراً مر جائیں گے اس لیے قرآن کے اس کھلے ہوئے چیلنج کے باوجود کسی یہودی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایک مرتبہ زبان سے تمنائے موت کا اظہار کر دے۔ یعنی مباہلہ کے لیے میدان عمل میں آئے۔ اعجازِ قرآن کی ساتویں وجہ : وہ خاص کیفیت ہے جو قرآن کے سننے سے ہر خاص و عام اور مؤمن و کافر پر طاری ہوتی ہے۔ جیسے جبیر بن مطعم ؓ کو اسلام لانے سے پہلے پیش آئی کہ اتفاقاً انہوں نے رسول ﷺ کو نماز مغرب میں سورة طور پڑھتے ہوئے سنا ، جب آپ ﷺ آخری آیت پر پہنچے تو جبیر ؓ کہتے ہیں کہ میرا دل گویا اڑنے لگا ، اور یہ سب سے پہلا دن تھا کہ میرے دل میں اسلام نے اثر کیا ، وہ آیات یہ ہیں : اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ0035 اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ 1ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ0036 اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ ہُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ0037 (طور 52 : 35 ، 37) ” کیا وہ بن گئے ہیں آپ ہی آپ ، یا وہی ہے بنانے والے ، یا انہوں نے بنائے ہیں آسمان اور زمین ! کوئی نہیں ، پر یقین نہیں کرتے ، کیا ان کے پاس ہیں خزانے تیرے رب کے ، یا وہی داروغہ ہیں ؟ “ اعجاز قرآن کی آٹھویں وجہ : یہ ہے کہ اسی کو بار بار پڑھنے اور سننے سے کوئی اکتاتا نہیں ، بلکہ جتنا زیادہ پڑھتا جاتا ہے اسکا شوق اور بڑھتا ہے ، دنیا کی کوئی بہتر سے بہتر اور مرغوب کتاب لے لیجئے اس کو دو چار بار پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت اکتا جاتی ہے ، پھر نہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو یہ صرف قرآن کا خاصہ ہے کہ جتنا کوئی اس کو زیادہ پڑھتا ہے اتنا ہی اس کا شوق ورغبت بڑھتا جاتا ہے ، یہ بھی قرآن کے کلام الٰہی ہونے ہی کا اثر ہے۔ اعجازِ قرآن کی نویں وجہ : یہ ہے کہ قرآن نے اعلان کیا ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ، وہ قیامت تک بغیر کسی ادنیٰ تغیر و ترمیم کے باقی رہے گا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ جب سے قرآن نازل ہوا ہے آج چودہ سو برس سے زیادہ ہونے کو آئے ہیں ہر قرن ہر زمانے میں لاکھوں انسان ایسے رہے ہیں اور رہیں گے جن کے سینوں میں پورا قرآن اس طرح محفوظ رہا کہ ایک زیر و زبر کی غلطی کا امکان نہیں ، ہر زمانے میں مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے اس کے حافظ ملتے ہیں ، بڑے سے بڑا عالم اگر کہیں ایک زیر و زبر کی غلطی کر جائے تو ذرا ذرا سے بچے وہی غلطی پکڑ لیں گے ، دنیا کا کوئی مذہب اپنی کتاب کے متعلق اس کی مثال تو کیا اس کا دسواں حصہ بھی پیش نہیں کرسکتا۔ بہت سے مذاہب کی کتابوں میں تو آج یہ پتہ چلانا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ اسکی اصل کس زبان میں آئی تھی ، اور اس کے کتنے اجزاء تھے ؟ کتاب کی صورت میں بھی ہر قرن ہر زمانے میں جتنی اشاعت قرآن کی ہوئی شاید دنیا کی کسی کتاب کو یہ بات نصیب نہیں ، حالانکہ دنیا شاہد ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کی تعداد دنیا کے بنسبت منکرین اور کافروں کے بہت کم رہی ، اور ذرائع نشر و اشاعت بھی جتنے غیر مسلموں کو حاصل رہے ہیں مسلمانوں کو اس کا کوئی معتدبہ حصہ نصیب نہ تھا ، مگر ان باتوں کے باوجود کسی قوم کسی مذہب کی کوئی کتاب دنیا میں اتنی شائع نہیں ہوئی جتنا قرآن شائع ہوا۔ پھر قرآن کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے صرف کتابوں اور صحیفوں پر موقوف نہیں رکھا جن سے جل جانے اور محو ہوجانے کا امکان ہو ، بلکہ اپنے بندوں کے سینوں میں محفوظ کردیا ، اگر آج ساری دنیا کے قرآن (معاذ اللہ) نابود کردیئے جائیں ، تو اللہ کی یہ کتاب پھر بھی اسی طرح محفوظ رہے گی ، چند حافظ مل کر بیٹھ جائیں تو چند گھنٹوں میں پھر ساری کی ساری کتاب لکھی جاسکتی ہے ، یہ بےنظیر حفاظت بھی صرف قرآن ہی کا خاصہ ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے کا نمایاں ثبوت ہے ، کہ جس طرح اللہ کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس پر کسی مخلوق کا تصرف نہیں چل سکتا اسی طرح اس کا کلام بھی ہمیشہ تمام مخلوقات کی دستبرد اور تصرفات سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا ، قرآن کی یہ پیش گوئی چودہ سو برس سے زیادہ تک مشاہدہ میں آچکی ہے ، اور تا قیامت انشاء اللہ تعالیٰ آتی رہے گی ، اس کھلے معجزے کے بعد قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں کیا کسی کو شک و شبہ کی گنجائش رہ سکتی ہے۔ اعجاز قرآن کی دسویں وجہ : وہ علوم و معارف ہیں جن کا احاطہ نہ آج تک کسی کتاب نے کیا ہے نہ آئندہ امکان ہے کہ اتنے مختصر حجم اور محدود کلمات میں اتنے علوم و فنون جمع کیے جاسکیں جو تمام کائنات کی دائمی ضروریات کو حاوی اور انسان کی زندگی کے ہر شعبہ اور حال سے متعلق پورا مرتب اور بہترین نظام پیش کرسکیں ، شخصی پھر عائلی زندگی سے لے کر قبائلی اور شہری زندگی تک اور پھر عمرانیات اور اجتماعیات اور سیاست ممالک کے ہر پہلو پر حاوی نظام پیش کردیں۔ پھر صرف نظری اور علمی طور پر نظام پیش کرنا ہی نہیں عملی طور پر اس کا رواج پانا اور تمام نظامہائے دنیا پر غالب آ کر قوموں کے مزاج ، اخلاق ، اعمال ، معاشرت اور تمدن میں وہ انقلاب عظیم پیدا کرنا جس کی نظیر نہ قرون اولیٰ میں مل سکتی ہے نہ قرون ما بعد میں ، یہ حیرت انگیز انقلاب کیا کسی انسان کی قدرت اور اس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہوسکتا ہے ؟ خصوصاً جب کہ وہ انسان بھی امی اور اس کی قوم بھی امی ہو۔ محذرات سرا پر دہائے قرآنی٭ چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی یہی وہ محیر العقول تاثیرات ہیں کہ جن کہ وجہ سے قرآن کو کلام الٰہی ماننے پر ہر وہ شخص مجبور ہے جس کی عقل و بصیرت کو تعصب وعناد نے بالکل ہی برباد نہ کردیا ہو۔ یہاں تک کہ اس دور مادہ پرستی کے مسیحی مصنّفین جنہوں نے کچھ بھی قرآن میں غور و فکر سے کام لیا اس اقرار پر مجبور ہوگئے کہ یہ ایک بےمثل و بےنظیر کتاب ہے۔ فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا (جس کا اردو ترجمہ یہ ہے) : ” بیشک قرآن کا طرز بیان خالق جل و علا کا طرز بیان ہے ، بلاشبہ جن حقائق و معارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ ایک کلام الٰہی ہوسکتا ہے ، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک و شبہ کرنے والے بھی جب اس کی تاثیر عظیم کو دیکھتے ہیں تو تسلیم و اعتراف پر مجبور ہوتے ہیں ، پچاس ، ساٹھ کروڑ مسلمان جو سطح زمین کے ہر حصہ میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں قرآن کے خاص تاثر کو دیکھ کر مسیحی مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ جس مسلمان نے اسلام اور قرآن کو سمجھ لیا وہ کبھی مرتد ہوا یا قرآن کا منکر ہوگیا ہو۔ “ مسلمانوں میں تاثیر قرآنی کا یہ اعتراف اس مسیحی مستشرق سے ایک ایسے دور میں ہو رہا ہے جب کہ خود مسلمان اسلام اور قرآن سے بیگانہ اس کی تعلیمات سے دور ، اور اس کی تلاوت سے غافل ہوچکے ہیں ، کاش ! یہ مصنف اسلام اور قرآن کے اس دور کو دیکھتا جب کہ مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن کا عمل تھا اور ان کی زبانوں پر قرآن کی آیات تھیں۔ اسی طرح دوسرے مسیحی مصنّفین نے بھی جو منصف مزاج ہیں اسی قسم کے اعتراف کئے ہیں۔ مسٹر ولیم میور نے اپنی کتاب ” حیات محمد ﷺ “ میں واضح طور پر اس کا اعتراف کیا ہے ، اور ڈاکٹر شبلی نعمانی نے اس پر ایک مستقل مقالہ لکھا ہے۔ قرآن کے کلام الٰہی اور معجزہ نبوی ﷺ ہونے پر دس وجوہ آپ سن ، پڑھ چکے ہیں ، آخر میں ایک اجمالی نظر اس پر ڈالئے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ پیدائشی بےباپ ہو کر دنیا میں تشریف لائے ہیں ، عمر بھر کسی مکتب میں قدم نہیں رکھتے ، قلم اور کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے ، اپنانام بھی خود نہیں لکھ سکتے ، اسی میں جوان ہوتے ہیں ، آپ ﷺ کی طبیعت عزلت پسند ہے ، کسی کھیل ، تماشہ ، جلسوں ، ہنگاموں میں بھی جانے کے عادی نہیں ، شعرو سخن سے بھی مناسبت نہیں ، کسی قومی اجتماع میں کبھی کوئی خطبہ دینے یا تقریر کرنے کا بھی عمر بھر اتفاق نہیں ہوتا ، چالیس سال ہونے کے بعد جب کہ ادھیڑ عمر میں پہنچ جاتے ہیں ، اور عادۃً کسی علم کے سیکھنے سکھانے کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس وقت آپ ﷺ کی زبان مبارک پر ایک ایسا محیر العقول ، جامع حقائق فصاحت و بلاغت میں اعجاز نما کلام آنے لگتا ہے ، جو کسی بڑے سے بڑے عالم ، ماہر اور فصیح وبلیغ سے بھی ممکن نہیں جس کے ذریعہ آپ ﷺ عرب کے بڑے بڑے فصحاء و بلغاء کو خطاب فرماتے ہیں ، ان کے جلسوں میں پہنچ کر خطبے دیتے ہیں ، اور پوری دنیا کے لیے عموماً عرب کے لیے خصوصاً یہ چیلنج سناتے ہیں کہ کوئی اس کے کلام الٰہی ہونے میں شبہ کرے تو اس کے کسی چھوٹے سے حصہ کی مثال بنا کر دکھلا دے ، اس پر پوری قوم مثال پیش کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے۔ پوری قوم جو پہلے آپ ﷺ کو امین کے لقب سے پکارتی اور تعظیم کرتی تھی ، آپ کی مخالف ہوجاتی ہے اس کلام کی تبلیغ سے باز رکھنے کے لیے دولت ، حکومت اور ہر انسانی خواہش کی چیزیں پیش کرتی ہے آپ ﷺ ان میں سے کسی چیز کو قبول نہیں کرتے ، پوری قوم آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے رفقاء کو ستانے ، ظلم کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے ، آپ ﷺ یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں ، مگر اس کلام کی تبلیغ نہیں چھوڑتے قوم آپ ﷺ کے قتل کی سازشیں کرتی ہے ، جنگ و جدل پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ جانا پڑتا ہے ، آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو وہاں بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سارا عرب اور اہل عرب آپ ﷺ کی مخالفت پر جمع ہوجاتا ہے ، آئے دن مدینہ پر حملے ہوتے ہیں آپ ﷺ کے مخالفین یہ سب کچھ کرتے ہیں ، مگر قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے ایک چھوٹی سی سورت قرآن کی مثل بنا کر پیش نہیں کرتے ، قرآن ان کو غیرت دلاتا ہے اس پر بھی ان کی رگ حمیت میں حرکت نہیں ہوتی۔ صرف یہی نہیں کہ پورا عرب قرآن کی مثال پیش کرنے سے عاجز رہا ، بلکہ خود وہ ذات اقدس جس پر یہ قرآن نازل ہوا ، وہ بھی اس کی مثال اپنی طرف سے پیش نہیں کرسکتے ، ان کا سارا کلام یعنی حدیث جس طرح کا ہے قرآن کا کلام یقیناً اس سے ممتاز ہے ، قرآن کریم کا ارشاد ہے : قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ 1ؕ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ 1ۚ (یونس 10 : 15) ” جو لوگ آخرت میں ہمارے سامنے آنے کے منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسی جیسا ایک اور قرآن بنا دیجئے یا اس کو بدل دیجئے تو آپ ﷺ فرمادیجئے کہ میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل ڈالوں۔ “ ایک طرف تو قرآن کے یہ کھلے معجزات ہیں جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر شاہد ہیں ، دوسری طرف اس کے مضامین و مضمرات اور حقائق و معارف پر نظر ڈالئے تو وہ اس سے زیادہ محو حیرت بنادینے والی چیز ہے۔ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور کے چند سال تو اس حالت میں گزرے کہ قرآنی تعلیمات کو کھلے طور پر پیش کرنا بھی ممکن نہ تھا ، آنحضرت ﷺ خفیہ طور پر لوگوں کو اصول قرآنی کی طرف دعوت دیتے تھے ، پھر بیشمار مزاحمتوں اور مخالفتوں کے نرغہ میں کچھ علانیہ دعوت بھی شروع کی جاتی ہے ، مگر قرآن کریم کے مجوزہ قانون کی تنقید کا کوئی امکان نہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد صرف دس سال ایسے ملے جن کو مسلمانوں کے لیے آزادی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے ، جس میں قرآنی نظام کی مکمل تعلیم اور تنفیذ کی کوشش اور کوئی تعمیری کام کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ان دس سال میں بھی آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ابتدائی چھ سال دشمنوں کے نرغہ اور منافقین اور یہود مدینہ کی سازشوں سے کس کو فرصت تھی کہ کوئی تعمیری کام اور ایسا نظام جو ساری دنیا کے نظاموں سے مختلف ہے ، عملی طور پر نافذ کرسکے ، مسلمانوں کے خلاف سب بڑے بڑے معرکے انہیں چھ سال کے اندر پیش آئے ، غزو بدر ، احد ، احزاب وغیرہ سب اسی مدت کے اندر ہوئے ، ہجرت کے چھٹے سال دس سال کے لئے حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا گیا اور صرف ایک سال اس معاہدہ پر قریش عرب قائم رہے ، اس کے بعد انہوں نے اس کو بھی توڑ ڈالا ، اور پھر جنگ و جہاد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر اسباب میں صرف یہ ایک دو سال ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو اس کام کے لیے ملے ، کہ قرآن کی دعوت کو عام کرسکیں ، اور اس کے نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کرسکیں ، اسی عرصہ میں آپ نے بڑے بڑے سلاطین دنیا کو خطوط لکھے ، قرآن کی دعوت ان کو پہنچائی ، قرآنی نظام کو قائم کرنے پھیلانے کی سعی فرمائی ، اور نبی کریم ﷺ کی آخری عمر مبارک تک اس آزادی کے صرف چار سال ہوتے ہیں جن میں فتح مکہ کا جہاد بھی پیش آیا اور مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ اب اس چار سال کی قلیل مدت کو دیکھئے ، اور قرآن کے اس نفوذ و اثر پر نظر ڈالئے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد تقریباً پورے جزیرۃ العرب پر قرآن کی حکومت تھی ، ایک طرف سرحد روم اور دوسری طرف عراق تک ، تیسری طرف عدن تک پہنچ چکی تھی۔ اگر اس سے بھی قطع نظر کرلی جائے کہ رسول کریم ﷺ امی تھے اس کو بھی نظر انداز کیا جائے کہ آپ ﷺ کی قوم ایک ایسی قوم تھی کہ جس نے کبھی کسی بادشاہ کی اطاعت قبول نہ کی تھی۔ اس کو بھی بھول جائیے کہ ساری دنیا آپ ﷺ کے خلاف تھی ، اور مشرکین عرب یہود و نصاریٰ سب کے سب مل کر آپ ﷺ کو اور قرآن کو دنیا سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے ، بالکل سازگار فضامان لیجئے تو بھی ایک نئے نظام ، نئے قانون اور نئے اصول کی پہلے تو تدوین و ترتیب پھر اس کی تعلیم و تفہیم ، پھر اس کی عملی تنفیذ اور اس کے ذریعہ ایک پاکباز معاشرہ ، اور ملک بھر میں امن و سکون پیدا کرنے کے لیے کتنی مدت ، کتنا سرمایہ ، کتنے آدمی درکار ہیں ، اور کیا وہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کو حاصل تھے ؟ آج کے نظاموں کو سامنے رکھ کر حساب لگائیے تو ایک اندھے کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی کہ یہ نفوذ و اثر یہ روحانی تاثیر بجز خاص قدرت الہیہ کے کسی طرح ظاہر نہیں ہوسکتی۔ اعجاز قرآنی کے پورے وجوہ اور ان کی تفصیلات کا بیان ایک نہایت طویل بحث ہے ، علماء امت نے اس پر بیسیوں مستقل کتابیں ہر زمانہ میں مختلف زبانوں میں تصنیف فرمائی ہیں۔ سب سے پہلے تیسری صدی ہجری میں جاحظ نے نظم القرآن کے نام سے مستقل کتاب لکھی۔ پھر چوتھی صدی کے اوائل میں ابو عبداللہ واسطی نے بنام اعجاز القرآن ایک کتاب تصنیف کی ، پھر اسی صدی میں ابن عیسیٰ ربانی نے ایک مختصر رسالہ بنام اعجاز القرآن لکھا ، قاضی ابوبکر باقلانی نے پانچویں صدی کے اوائل میں اعجاز القرآن کے نام سے ایک مفصل و مبسوط کتاب لکھی ، علامہ جلال الدین سیوطی نے اتقان اور خصائص کبریٰ میں امام رازی ؓ نے تفسیر کبیر میں ، قاضی عیاض (رح) نے شفاء میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون کی تفصیل لکھی ، آخری دور میں مصطفیٰ صادق رافعی مرحوم نے اعجاز القرآن کے نام سے اور جناب سید رشید رضا مصری نے الوحی المحمدی کے نام سے مستقل ، جامع اور مبسوط کتابیں لکھیں ، اردو زبان میں محترم علامہ شیخ الاسلام حضرت شبیر احمد عثمانی (رح) نے ایک رسالہ بنام اعجاز القرآن تصنیف فرمایا۔ یہ بھی قرآن مجید کی خصوصیات میں سے ہے کہ اس کے ایک ایک مسئلہ پر مکمل تفسیروں کے علاوہ مستقل رسائل و کتابیں اتنی لکھی گئیں کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پھر قرآن کی صرف فصاحت و بلاغت و نظم و ترتیب ہی بےمثل نہیں ، لوگوں کے دل و دماغ پر اس کی تاثیرات عجیبہ اس سے زیادہ بےمثال اور حیرت انگیز ہیں ، جن کی وجہ سے قوموں کے مزاج بدل گئے ، انسانی اخلاق میں ایک کا یہ پلٹ ہوگئی ، عرب کے تندخو ، گنوار حلم و اخلاق اور علم و حکمت کے استاد مانے گئے ، ان حیرت انگیز انقلابی تاثیرات کا اقرار صرف مسلمان ہی نہیں موجود زمانے کے سینکڑوں غیر مسلموں نے بھی کیا ہے ، یورپ کے مستشرقین کے مقالات اس بارے میں جمع کئے جائیں تو ایک مستقل کتاب ہوجائے ، اور حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بنام شہادۃ الاقوام علی صدق الاسلام تحریر فرمائی ہے اس جگہ چند حوالے نقل کئے جاتے ہیں ! ڈاکٹر گستاولی بان نے اپنی کتاب تمدن عرب میں صفائی سے اس حیرت انگیزی کا اعتراف کیا ، ان کے الفاظ کا ترجمہ اردو میں یہ ہے : ” اس پیغمبر اسلام اس نبی امی کی بھی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے ، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک گیر کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا ، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیرو زبر کر ڈالا ، اور اس وقت بھی وہی نبی امی اپنی قبر کے اندر سے لاکھوں بندگان خدا کو کلمہ اسلام پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ “ مسٹروڈون جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا ہے لکھتا ہے کہ : ” جتنا بھی ہم اس کتاب (یعنی قرآن) کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی نامرغوبی نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے ، لیکن فوراً ہمیں مسخر کرلیتی ہے ، متحیر بنادیتی ہے ، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے ، اس کا طرز بیان باعتبار اس کے مضامین و اغراض کے عفیف ، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جابجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں۔ غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا زور اثر دکھاتی رہے گی۔ “ (شہادۃ الاقوام ، ص 13) مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زاغلول نے 1898 ء میں مسٹر کونٹ ہنروری کی کتاب السلام کا ترجمہ عربی میں شائع کیا تھا ، اصل کتاب فرنچ زبان میں تھی ، اس میں مسٹر کونٹ نے قرآن کے متعلق اپنے تاثرات ان الفاظ میں ظاہر کئے ہیں : ” عقل حیران ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہوا جو بالکل امی تھا ، تمام مشرق نے اقرار کرلیا ہے کہ نوع انسانی لفظاً و معناً ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ، یہ وہی کلام ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن خطاب کو مطمئن کردیا ، ان کو خدا کا معترف ہونا پڑا ، یہ وہی کلام ہے جب کہ یحییٰ علیہ اسلام کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب نے حبشہ کے بادشاہ کے دربار میں پڑھے تو اس کی آنکھوں سے بےساختہ آنسو جاری ہوگئے ، اور بشپ چلا اٹھا کہ یہ کلام اسی سرچشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام نکلا تھا۔ “ (شہادۃ الاقوام ص 14) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ، جلد 16 ص 599 میں ہے : ” قرآن کے مختلف حصص کے مطالب ایک دوسرے سے بالکل متفادت ہیں ، بہت سی آیات دینی و اخلاقی خیالات پر مشتمل ہیں ، ظاہر قدرت ، تاریخ الہامات انبیاء کے ذریعہ اس میں خدا کی عظمت مہربانی اور صداقت کی یاد دلائی گئی ہے ، بالخصوص حضرت محمد ﷺ کے واسطہ سے خدا کو واحد اور قادر مطلق ظاہر کیا گیا ہے ، بت پرستی اور مخلوق پرستی کو بلالحاظ ناجائز قرار دیا گیا ہے ، قرآن کی نسبت یہ بالکل بجا کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی موجودہ کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ “ انگلستان کے نامور مورخ ڈاکٹر گبن اپنی مشہور تصنیف (سلطنت روما کا انحطاط وزوال) کی جلد 5 باب 5 میں لکھتے ہیں : ” قرآن کی نسبت بحر اٹلانٹک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کی روح ہے ، قانون اساسی ہے اور صرف اصولی مذہب ہی کے لیے نہیں ، بلکہ احکام تعزیرات کے لیے اور قوانین کے لیے بھی ہے جن پر نظام کا مدار ہے ، جن سے نوع انسانی کی زندگی وابستہ ہے جن کو ہائیت انسانی کی ترتیب و تنسیق سے گہرا تعلق ہے ، حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد (a) کی شریعت سب پر حاوی ہے ، یہ شریعت ایسے دانشمندانہ اصول اور اس قسم کے قانونی انداز پر مرتب ہوئی ہے کہ سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ “ اس جگہ مستشرقین یورپ کے اقوال و اعترافات کا استیعاب کرنا نہیں کہ اس کی گنجائش نہیں ، نمونہ کے طور پر چند اقوال نقل کئے گئے ہیں ، جن سے واضح ہوتا ہے کہ باعتبار فصاحت و بلاغت کے اور باعتبار اغراض و مقاصد کے اور باعتبار علوم و معارف کے قرآن کے بےنظیر و بےمثل ہونے کا اقرار صرف مسلمانوں نے نہیں ہر زمانہ کے منصف مزاج غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ قرآن نے ساری دنیا کو اپنی مثال لانے کا چیلنج دیا تھا اور کوئی نہ لاسکا ، آج بھی ہر مسلمان دنیا کے ماہرین علم و سیاست کو چیلنج کر کے کہہ سکتا ہے کہ پوری دنیا کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا دکھلا دو کہ ایک بڑے سے بڑا ماہر حکیم فیلسوف کھڑا ہو اور ساری دنیا کے عقائد و نظریات اور رسوم و عادات کے خلاف ایک نیا نظام پیش کرے ، اور اس کی قوم بھی اتنی جاہل گنوار ہو ، پھر وہ اتنے قلیل عرصہ میں اس کی تعلیم کو بھی عام کر دے اور عملی تنفیذ کو بھی اس حد پر پہنچا دے کہ اس کی نظیر آج کے مضبوط و مستحکم نظاموں میں ملنا ناممکن ہے۔ دنیا کی پہلی تاریخ میں اگر اس کی کوئی نظیر نہیں تو آج تو بڑی روشنی ، روشن خیالی ، بڑی تیز رفتاری کا زمانہ ہے ، آج کوئی کر کے دکھلادے ، اکیلا کوئی نہ کرسکے تو اپنی قوم کو بلکہ دنیا کی ساری اقوام کو جمع کر کے اس کی مثال پیدا کر دے۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ 1ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ 0024 ” اگر تم اس کی مثال نہ لاسکے اور ہرگز نہ لاسکو گے تو پھر اس جہنم کی آگ سے ڈرو ، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، جو منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “ کاش کہ مسلمانوں نے اس کتاب اللہ کے لائے ہوئے قوانین الٰہی کو پس پشت نہ ڈالا ہوتا تو آج اقوام عالم میں ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت اسلامی : 54: تصدیق رسالت کے ساتھ ہی رسول کی حیثیت اسلامی کی بھی مکمل وضاحت فرمادی۔ ظاہر ہے کہ یہ موقع رسول اللہ ﷺ کے خاص قرب و اختصاص کے اظہار کا ہے لیکن اس انتہائی زور و اہمیت کے موقع پر بھی رسول کی ذاتی حیثیت محض ایک ” خاص بندہ “ یعنی عبد کے لفظ ہی سے مناسب سمجھی گئی اور دنیا کی اقوام و امم کو بتادیا گیا کہ دین اسلام میں رسول کی حیثیت ” اللہ کا ایک خاص بندہ “ کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی نہ وہ اللہ ہے نہ اللہ کا جزو اور نہ اللہ کا مثل ، نہ بروز ، نہ اوتار ، نہ اللہ کا وزیر ، نہ مشیر بلکہ محض عبد ! یعنی اللہ کا ایک خاص بندہ۔ نبوت و رسالت اور اہل اسلام : نبوت و رسالت پر اہل اسلام نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن ہمارے خیال میں اس وقت یہ بحث کرنا اضاعت وقت ہے کیونکہ جب نبوت و رسالت محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوگئی تو اب اس کی وضاحت کی کیا ضرورت رہی ؟ جب تک نبوت جاری تھی یہ مضمون قابل وضاحت تھا۔ تاکہ آنے والے نبی کی پہچان ہوسکے اب جب کہ نبوت و رسالت ختم ہوچکی ہے تو اس بحث کا بھی خاتمہ ہوچکا۔ ہاں یہ بات کہ نبوت کیا تھی ؟ کیا سمجھی گئی ؟ مختصر الفاظ میں پیش خدمت ہے : علماء اسلام کی اکثریت نے نبوت کو ایک عہدہ سمجھا ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے یا جس کو منتخب کرتا ہے دے دیتا ہے جیسے بادشاہ اپنی رعایا میں سے کسی کو وزیر ، کسی کو مشیر ، کسی کو دیوان ، کسی کو بخشی کردیتا ہے۔ اور وہ اس منصب کو پاکر کام شروع کرتا ہے اور مبعوث ہونے کے ٹھیک معنی انہوں نے اسی طرح سمجھے ہیں لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں ہے۔ ہم نبوت کو ایک خاص و ہبی چیز سمجھتے ہیں۔ نبی کو اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ تھا بہرحال نبی تھا۔ النبی نبی ولو کان فی بطن امہ۔ نبی جب پیدا ہوتا تھا تو نبی ہی ہوتا تھا اگرچہ اس کو خود بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ ہاں ! یہ اختلاف کیوں ؟ اس لئے کہ بادشاہ نے اپنی رعایا میں سے جس کو چاہا وزیر و مشیر بنایا اور جس کو چاہا نہ بنایا۔ لیکن جن کو وزیر و مشیر بنایا ان کی زندگیوں ، اور جن کو وزیر و مشیر نہ بنایا ان کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ ان کی زندگیوں کے برابر بلکہ ان سے بھی اعلیٰ زندگیوں کے لوگ اور بھی موجود تھے لیکن اللہ نے جس شخص کو نبوت یعنی ملکہ نبوت بخشا اس کے مقابلہ کی زندگی رکھنے والا اور کوئی انسان اس وقت یا اس کے بعد موجود نہ تھا اور نہ اب ہے۔ جب اس کے مقابلہ کا کوئی اور انسان نہ تھا تو اس سے اعلیٰ وارفع ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؟ اسی طرح انسانوں کی زندگی کا وہ حصہ جو بلوغت سے پہلے کا ہوتا ہے وہ بچپن کی حرکات و سکنات سے بالکل محفوظ نہیں ہوتا بلکہ ہونہار بچوں کا بچپن دوسرے ہم عمروں سے زیادہ تیکھا ہوتا ہے مثل مشہور ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ لیکن نبی ہونے والے انسان کا بچپن ، بچپن کی حرکات سے محفوظ ہوتا تھا۔ ہر نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بعد کی زندگی سے مختلف نہیں تھی الایہ کہ بعثت کے بعد اس نے دوسروں کو بھی اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن عجب یہ ہے کہ جو پیغامات انہوں نے دوسروں تک پہنچائے وہ بالکل وہی تھے جو پیدائش سے لے کر بعثت تک کے زمانہ میں ان سے صادر ہوتے رہے۔ ذرا قرآن ہی میں غور کرو تو آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ ارشاد ہوتا ہے : فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ 1ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 0016 (یونس 10 : 16) ” پھر دیکھو یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملہ یعنی اعلان نبوت سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں۔ کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں ؟ “ غور کرو کہ اس آیت کریمہ میں صداقت نبوت کی ایک سب سے زیادہ واضح اور وجدانی دلیل بیان کی ہے لیکن افسوس ہے کہ مفسرین نے اس کی پوری حقیقت واضح نہیں کی۔ فرمایا جا رہا ہے ، ساری باتیں چھوڑ دو ۔ صرف اسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے خصائل و حالات اور اخلاق و کردار کی تمہیں خبر نہ ہو۔ تم ہی میں سے ہوں اور اعلان وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں یعنی چالیس برس تک کی عمر ، کہ عمر انسانی کی پختگی کی کامل مدت ہے۔ اس تمام مدت میں میری زندگی تمہاری آنکھوں کے سامنے رہی۔ بتلائو اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی تم نے سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی ؟ پھر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اب اللہ پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہوجائوں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں کہ مجھ پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے ؟ کیا اتنی سی موٹی بات بھی تم نہیں پاسکتے ؟ تمام علماء اخلاق و نفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور بننے کا اصل زمانہ ہوتا ہے جو سانچا اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں نہیں بدل سکتا۔ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق اور امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب اور مفتری بن جائے کہ انسانوں ہی پر نہیں بلکہ اس خالق حقیقی پر افتراء کرنے لگے ؟ اگر تم کو مخالفت ہی کرنا ہے تو مخالفت کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہے تم اس سے ہاتھ دھو بیٹھے ؟ اکثر علمائے اسلام نے انبیاء اور عام انسانوں میں بجز اس کے کہ ان کو اللہ کی طرف سے ایک عہدہ مل گیا اور کچھ فرق نہیں سمجھا اور اسی لئے اشاعرہ نے جو عام مسلک مسلک اہل سنت کا ہے نبی اور امت کی مثال سلطان و رعیت کی سی سمجھی ہے مگر ہماری سمجھ میں یہ مثال ٹھیک نہیں ہے۔ نبی اور امت کی مثال راعی و غنم کی سی ہے۔ گو نبی اور امت انسانیت میں شریک تھے جیسے کہ راعی و غنم حیوانیت میں شریک ہیں مگر نبی اور امت اور وہبت نبوت کی ایسی ہی فضل ہے جیسے راعی و غنم میں ناطقیت کی فصل۔ طریقہ نزول قرآن کریم اور دوسرا معجزہ : قرآن کریم کا ” نجمًا نجمًا “ نازل ہونا بھی بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ وہ بہ مقتضائے اسی وہبیت کے نازل ہوا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انسان میں تمام ملکات انسانی کسی محرک یعنی کسی امر کے پیش آنے پر اپنا کام کرتے ہیں اسی طرح ملکہ نبوت بھی جبھی اپنا کام کرتا تھا جب کوئی امر پیش آتا تھا۔ انسان کے دل میں سینکڑوں مضمون ہوتے ہیں ، سینکڑوں نصیحتیں ہوتی ہیں ، اشعار ہوتے ہیں ، مضامین ہوتے ہیں ، علوم مختلفہ ہوتے ہیں ، دوستوں کی صورتیں ، مکانوں ، باغوں اور جنگلوں کی تصویریں دماغ میں موجود ہوتی ہیں مگر جب تک ان پر متوجہ ہونے کا کوئی سبب نہ ہو وہ سب بےمعلوم رہتی ہیں۔ یہی حال ملکہ نبوت کا تھا۔ نبی مع اپنے ملکہ نبوت یا نور نبوت کے موجود ہوتا تھا ، کھاتا تھا ، پیتا تھا ، سوتا تھا ، جاگتا تھا ، دنیوی باتیں جن کا تعلق دین سے نہیں تھا ، کرتا تھا جس طرح کہ باقی انسان کرتے ہیں لیکن اس کی حفاظت اس کا ملکہ نبوت ساتھ ساتھ ہر وقت جاری رکھتا تھا کہ کوئی بات خلاف دین صادر نہ ہو۔ یہی وہ دقیقی نکتہ ہے بلکہ یوں کہو کہ معجزہ قرآنی ہے جس کو ارشاد الٰہی خود نبی کی زبان سے اس طرح کہلواتا ہے : قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ 1ۚ (الکہف 8 : 110) ” اے پیغمبر اسلام ! کہہ دیجئے کہ میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں البتہ اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تمہارا معبود وہی ایک ہے۔ “ اور خود نبی رحمت نے فرمایا : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ دِینِکُمْ فَخُذُوا بِهِ وَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ رَأْیٍ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ . ” میں ایک انسان ہوں جب میں تمہیں کوئی دین کی بات کا حکم دوں تو تم اس کو اپنا لو اور جب میں اپنی رائے سے کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں ۔ “ (مسلم : 1626)
Top