بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الم
(1 ۔ 4) سورة آل عمران کی فضیلت میں بہت سی صحیح حدیثیں آئی ہیں یہ سورت مدنی ہے اس سورت کی دو سو آیتیں ہیں اس تفسیر کے مقدمہ میں اس کا ذکر ہے کہ تفسیر ابن ابی حاتم بڑی صحیح تفسیر ہے اس میں اور صحیح تفسیروں میں جو روایتیں ہیں 1 ان کا حاصل یہ ہے کہ 9؁ ہجری میں کچھ عیسائی لوگ شام اور یمن کے ما بین میں ایک بخران بستی ہے وہاں سے اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تھے اور ان عیسائی لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا بیٹا ہونے میں آنحضرت ﷺ سے بڑا مباحثہ کیا اس پر اس سورة کی اکثر آیتیں نازل ہوئیں جن میں مباہلہ کی آیت بھی ہے۔ مباہلہ کی پوری تفصیل تو اسی آیت کی تفسیر میں آئے گی لیکن اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جب دو فریق میں کسی دینی امر کا جھگڑا ہو اور وہ جھگڑا زبانی مباحثہ سے طے نہ ہو تو دونوں فریق و مع قریب کے رشتہ داروں کے جنگل میں جانے اور فریق ہٹ دہرم پر عذاب الٰہی نازل ہونے کی بد دعا کرنے کا حکم ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب وہ عیسائی لوگ مباہلہ کی آیت سے پہلے کی آیتوں میں طرح طرح کی جو نصیحتیں تھیں ان کو خیال میں نہ لائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہنے کی ہٹ دہرمی پر اڑے رہے تو آخر مباہلہ کی یہ آیت اتری اور اس آیت کے اترتے ہی آنحضرت ﷺ حضرت علی ؓ و فاطمہ ؓ و حسن ؓ و حسین ؓ کو ساتھ لے کر جنگل میں تشریف لے گئے اور ان عیسائی لوگوں کو آدمی بھیج کر بلایا مگر ان عیسائیوں میں کئی شخص بڑے پادری تھے انہوں نے مباہلہ منظور نہیں کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی سے مباہلہ کرنا بڑی خرابی کی بات ہے غرض ان لوگوں نے مباہلہ قبول نہیں کیا اور سالانہ خراج دینا قبول کرلیا اس پر آنحضرت ﷺ نے قسم کھا کر یہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو ضرور آسمان سے آگ برستی 1۔ اور یہ لوگ وہیں جنگل میں جل کر بھسم ہوجاتے۔ الم ان حروف مقطعات کی بحث سورة بقر میں گذرچ کی ہے اور یہ حدیث بھی گذرچ کی ہے کہ اسم اعظم ان دونوں میں آیتوں ہے اللہ لا اللہ الا ھو الحی القیوم و الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم 2۔ صحیح حدیثوں میں ہے کہ اسم اعظم کے پڑھنے کے بعد آدمی جو دعا مانگے وہ ضرور قبول ہوتی ہے 2۔ حیی ٌ کے معنی ہمیشہ باقی رہنے والا قیوم کے معنی اپنی ذات سے قائم رہ کر تمام مخلوقات کا ہر طرح کا بندوبست کرنے والا ان دونوں لفظوں کے ذکر فرمانے میں یہ نصیحت ہے کہ جب ان عیسائی لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) میں کوئی صفت ان دونوں صفتوں میں کی نہ پائی گئی کیونکہ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہو اس کو سولی پر چڑھانا اور جس کے ہاتھ میں تمام عالم کا انتظام ہو یہودیوں کا اس کے انتظام سے باہر ہو کر اتنی بڑی بےانتظامی کا پھیلانا کس طرح ہوسکتا ہے پھر باپ بیٹے میں مناسبت کیونکر ہوئی اور ان لوگوں کے اعتقاد کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کس مناسبت سے کہا جاسکتا ہے۔ اب آگے یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ پر تورات اور عیسیٰ پر انجیل نازل فرمائی اسی طرح نبی آخر الزمان پر قرآن نازل فرمایا جس طرح قرآن میں ان کتابوں کی صداقت موجو ہے اسی طرح ان کتابوں میں قرآن کی صداقت موجود ہے۔ ایک کو بھی ان میں سے جھٹلایا جائے تو دوسرے کی صداقت کو بٹا لگتا ہے۔ پھر یہ لوگ قرآن کے کیوں منکر ہیں جس سے سخت عذاب ان کو بھگتنا پڑے گا۔ پھر یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ ایسا زبر دست ہے کہ وقت مقرر پر کتاب آسمانی کے منکروں سے جب وہ بدلہ لینا چاہے گا تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اللہ سچا ہے۔ اللہ کا کلام ہے۔ دنیا میں تو ان لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ بدلہ لیا کہ ان آیتوں کے نزول سے پانچ برس کے بعد ان لوگوں کی بستی پر اہل اسلام کا قبضہ کرا دیا۔ اور عقبیٰ کا بلا عقبیٰ کے ساتھ ہے۔
Top