بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الف۔ لام۔ میم۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 6 نزل (اس نے نازل کیا) عزیز (زبردست) ذوانتقام (انتقام لینے والا) یصور (تصویر بناتا ہے، شکلیں بنایا ہے) الارحام (رحم ) پیٹ) کیف یشاء (جیسے وہ چاہتا ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 6 نخران یمن کے ایک علاقہ کا نام ہے۔ فتح مکہ کے بعد نخران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی کریم ﷺ سے مذہبی بحث ومناظرہ کے لیے مدینہ منورہ آیا۔ اس وفد میں چودہ پندرہ آدمی خاص طور پر بڑے معزز اور سردار تھے۔ اس وفد نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بحث شروع کی تو سورة آل عمران میں تقریباً 83 آیتیں نازل ہوئیں۔ ان آیات کی روشنی میں آنحضرت ﷺ نے اس وفد کو جوابات دیئے۔ اس وفد نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کے لئے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) : 1 ۔ مردوں کو زندہ اور بیماروں کو اچھا کردیا کرتے تھے۔ 2 ۔ وہ لوگوں کو غیب کی باتیں بتاتے تھے۔ 3 ۔ مٹی کی مورتیں بناکر پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو کر پرندہ بن جایا کرتی تھیں۔ 4 ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بغیرباپ کے پیدا ہوئے انہوں نے گہوارہ میں لوگوں سے باتیں کیں۔ ان باتوں سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ (نعوذ باللہ) اللہ کے بیٹے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس وفد کے ان تمام اعتراضات کو سن کر فرمایا کہ : 1 ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ جیسا ہوتا ہے۔ وفد نے کہا کیوں نہیں۔ 2 ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس کو موت نہیں آتی وہ زندہ رہے گا جبکہ حضرت عیسیٰ کو ضرور موت اور فنا سے واسطہ پڑے گا ۔ اس وفد نے اس کا بھی اقرار کیا۔ 3 ۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے وجود کو تھامنے والا اس کا محافظ ، نگراں اور رزق پہنچانے والا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کیا ان سے کوئی بات بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں تھی۔ انہوں نے کہا جی نہیں۔ 4 ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ وہ ہے جس سے زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ یا چھپی ہوئی نہیں ہے جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے جتنا علم دیا تھا وہ اس سے زیادہ کچھ نہ جانتے تھے۔ انہوں نے اس کا بھی اقرار کیا۔ 5 ۔ آپ نے فرمایا پروردگار نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل و صورت اپنی مرضی کے مطابق ان کی ماں کے پیٹ میں بنائی۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ 6 ۔ ارشاد فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کھانے پینے اور دوسری حاجات کا محتاج نہیں ہے ان کا جواب اقرار میں تھا۔ 7 ۔ ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح نو ماہ تک اپنے شکم میں رکھا جس طرح عام بچے رہتے ہیں۔ پیدا ہونے کے بعد ان کو غذا دی گئی ، وہ کھاتے اور پیتے بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیشک یہی بات ہے۔ 8 ۔ آپ نے آخری بات یہ پوچھی کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں یہ تمام باتیں تھیں تو پھر وہ اللہ کے بندے تھے یا خود ہی اللہ تھے۔ نبی کریم ﷺ کے یہ تمام سوالات اس قدر بھرپور تھے کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ انہوں نے حق اور سچائی کو اچھی طرح پہچان لیا تھا مگر وہ اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے رہے۔ آپ نے فرمایا اگر اب بھی تمہیں میرے دعوائے رسالت میں شک ہے تو اس کا فیصلہ اس طرح کرلیتے ہیں کہ تم بھی اپنی اولاد اور گھر والوں کو لے آؤ اور ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں باہر میدان میں نکلتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہو اس پر لعنت ہو۔ عیسائیوں کا یہ وفد لاجواب ہوچکا تھا یہ کہہ کر اٹھ گیا کہ ہم آپس میں مشورہ کرلیتے ہیں۔ اور کل صبح مباہلہ (یعنی قسمیں کھانے کا معاملہ کرلیتے ہیں) چناچہ انہوں نے باہمی مشورہ کے بعد یہ طے کیا کہ قسمیں نہ کھائی جائیں۔ طے کرلینے کے بعد راتوں رات یہ وفد چپکے سے مدینہ سے یمن واپس چلا گیا۔ اس طرح مضبوط دلیلوں کے سامنے عیسائیوں نے چپکے سے بھاگ جانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔
Top