بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الم
آیت 1-6 اس سورت کی شروع کی اسی (80) سے زیادہ آیات عیسائیوں سے مباحثہ، ان کے مذہب کی تردید اور انہیں سچے دین یعنی اسلام کو قبول کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔ جس طرح سورة بقرہ کی ابتدائی آیات یہود سے مناظرہ پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اپنی الوہیت کے اعلان سے شروع کی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ وہی ایسا معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبادت صرف اسی کی اور اسی کے لئے ہونی چاہیے۔ لہٰذا اس کے سوا جس معبود کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے۔ اللہ ہی سچا معبود ہے جو الوہیت کی تمام صفات سے موصوف ہے جن سب کا تعلق حیات اور قیومیت کی صفات سے ہے۔ (الحی) سے مراد یہ ہے کہ اسے عظیم ترین اور کامل ترین حیات کی صفات حاصل ہیں، جو ان تمام صفات کو مستلزم ہیں جن کے بغیر صفات حیات کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مثلاً سمع، بصر، قدرت، قوت، عظمت، بقا، دوام اور غلبہ (القیوم) کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بخودقائم ہے لہٰذا تمام مخلوقات سے بےپرواہ ہے اور وہ سب کو قائم رکھنے والا ہے اس لئے تمام مخلوقات وجود میں آنے، تیار ہونے اور ترقی کرنے میں اس کی محتاج ہیں۔ وہی تمام مخلوقات کا مدبر اور ان میں تصرت کرنے والا ہے۔ جسموں، روحوں اور دلوں کے تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی قیومت اور رحمت کی بنا پر اس نے اپنے رسول محمد ﷺ پر وہ کتاب نازل کی، جو سب سے عظیم کتاب ہے، جس کی خبریں اور احکام سب حق ہیں۔ اس نے جو خبریں دی ہیں وہ سچی ہیں۔ جو اس نے حکم دیئے ہیں وہ انصاف پر مبنی ہیں۔ اس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ بندے اس کتاب کا علم حاصل کریں اور اپنے رب کی عبادت کریں۔ (مصدقاً لما بین یدیہ) ” جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے “ یعنی گزشتہ کتابوں کی لائید کرتی ہے جس مسئلہ کے حق میں قرآن فیصلہ دے وہی مقبول ہے اور جس کی یہ تردید کرے وہی ناقابل قبول ہے۔ یہ ان تمام مسائل کے مطابق ہے جن پر تمام رسولوں کا اتفاق ہے۔ ان سے اس کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ الہ کتاب جب تک قرآن پر ایمان نہ رکھیں تب تک اپنی کتابوں کو سچا نہیں مان سکتے۔ کیونکہ قرآن کا انکار ان کتابوں پر ایمان کو کالعدم کردیتا ہے۔ (وانزل التورتۃ) ” اس نے (موسیٰ پر) تو رات “ اور عیسیٰ پر (والانجیل) ” انجیل کو اتارا تھا “ (من قبل) ” اس قرآن کو نازل کرنے سے پہلے “ (ھدی للناس) لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر “ ہدایت کی صفت ان تمام کے لئے ہے یعنی اللہ نے قرآن، تورات اور انجیل کو لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے رہنما بنا کر نازل کیا تھا۔ جس نے اللہ کی یہ ہدایت قبول کرلی، وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جس نے قبول نہ کیا وہ گمراہ رہا۔ (وانزل الفرقان) ” اور اس نے فرقان کو نازل کیا۔ “ یعنی دلائل وبراہین قاطعہ، جن سے تمام مقاصد و مطالب پایہ ثبوت کو پہنچ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس نے مخلوق کی ضرورت کے مطابق تفصیل و تفسیر بیان کی ہے۔ جس سے احکام و مسائل نہایت واضح ہوگئے ہیں۔ لہٰذا کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا اور اس پر ایمان نہ لانے والے کسی شخص کے پاس کوئی حجت و دلیل باقی نہیں رہی۔ اس لئے فرمایا : (ان الذین کفروا بایت اللہ) ” جو لوگ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں “ حالانکہ اللہ نے انہیں خوب واضح فرما دیا اور تمام شبہات کو دور فرما دیا ہے۔ (لھم عذاب شدید) ” ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ “ جس کی شدت کا اندازہ کرنا ممکن نہیں اور جس کی حقیقت و کیفیت معلوم نہیں ہوسکتی۔ (واللہ عزیز) ” اللہ غالب ہے “ اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور (ذوانتقام) جو اس کی نافرمانی کرے اس سے ” بدلہ لینے والا ہے “ (ان اللہ لای، یخفی علیہ شی فی الارض ولا فی السمآء) ” یقیناً اللہ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں “ یعنی اس کا علم تمام معلومات کو محیط ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ مثلاً ماؤں کے پیٹوں میں جو بچے ہیں، انہیں مخلوق کی نظریں نہیں دیکھ سکتیں، نہ لوگ ان کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بڑی باریک بینی سے انہیں سنبھالتا ہے اور ان سے متعلق ہر چیز کا صحیح اندازہ مقرر کرتا ہے۔ اس لئے فرمایا : (ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشآء) ” وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ “ یعنی کامل جسم والے یا ناقص الخلقت، خوبصورت یا دصورت، مذکر یا مونث (لا الہ الا ھو العزیز الحکیم) ” اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ غالب ہے حکمت والا ہے “ اس سے اللہ تعالیٰ کا معبود ہونا، ثابت و متعین ہوتا ہے اور نہ صرف اسی کا معبود ہونا بلکہ اس کے سوا پوجے جانے والوں کی الوہیت کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے اور اس سے نصاریٰ کی تردید بھی ہوجاتی ہے۔ جو حضرت عیسیٰ کو معبود سمجھتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی حیات کاملہ اور قیومیت نامہ کا اثبات بھی ہے، جن سے تمام صفات مقدسہ کا اثبات ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس سے بڑی بڑی شریعتوں کا ثبوت بھی ملتا ہے اور یہ بیان ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا باعث تھیں اور یہ کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ہدایت یافتہ اور ہدایت سے محروم اور ہدایت قبول نہ کرنے والے کی سزا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور اس کی مشیت اور حکمت کا واقع ہو کر رہنا ثابت ہوتا ہے۔
Top