بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الم
آیت 1‘ 2: اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ۔ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ (اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں۔ وہ حی وقیوم ہے اس نے تم پر تورات و انجیل حق کے ساتھ اتاری۔ یہ اپنے سے پہلے آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس نے تورات و انجیل کو اتارا) ۔ انتقالِ حرکت کا مسئلہ : الٓمٓ کی میم کو التقائے ساکنین کی وجہ سے حرکت دی گئی۔ میری مراد ساکنین سے میم اور لفظ اللہ کی لام ہے۔ پھر میم کو ملانے کے لئے فتحہ دیا۔ جو کہ اخف الحرکات ہے اور کسرہ نہیں دیا کیونکہ ماقبل میم مکسور اور یائے ساکن ہے تاکہ پے درپے کسرات کی آمد لازم نہ آئے۔ میم کا فتحہ اسکے سکون کی وجہ سے اور ماقبل یاء کے سکون کی وجہ سے نہیں۔ اگر اس طرح ہوتا تو حٰمٓٓمیں بھی میم پر فتحہ دینا پڑتا حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے اگر اس نے میم کو فتحہ دیا تو یہ فتحہ لفظ اللہ کے ہمزہ سے منتقل ہو کر میم کی طرف آیا ہے۔ کیونکہ وہ ہمزہ تو ہمزئہ وصل ہے۔ جو درمیان کلام میں گر جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی حرکت بھی گر جاتی ہے۔ اگر اس کی حرکت کا منتقل کرنا جائز ہوتا۔ تو اس کا قائم رکھنا بھی جائز ہوتا۔ حالانکہ اس کو ثابت رکھنا جائز نہیں۔ قراءت : یزید اور اعشیٰ نے میم کو ساکن قرار دے کر الف کو ہمزہ قطعی قرار دیا۔ بقیہ قراء نے وصل الف اور فتحہ میم کے ساتھ پڑھا۔ لفظ اللہ مبتداء اور لا الٰہ الا ھو یہ اس کی خبر ہے۔ اور ” لآ “ کی خبر مضمر ہے تقدیر عبارت یہ ہے لا الٰٰٰٰہ فی الوجود الَّا ھو۔ ھُوَ : یہ موضع رفع میں موضع ” لآ “ سے بدل ہے اور اس کا اسم الحی القیوم مبتدائے محذوف کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے۔ ھو الحیّ ، یا ھو سے بدل ہے۔ القیوم یہ فیعول کے وزن پر قام سے ہے۔ مراد وہی ذات انصاف کو قائم کرنے والی اور ہر شخص کے اعمال پر نگران ہے۔
Top