بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الۗمَّۗ(
یہ حروف مقطعات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کی صفات تشریح : اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب اسلام کا بول بالا ہونے لگا اور غزوہ بدر میں فتح نصیب ہوئی تو بخران کے عسائیوں کا ایک وفد آپ ﷺ کے پاس تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آیا۔ یہ لوگ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ مانتے تھے۔ محمد ﷺ نے ان کو ثبوت دے کر سمجھانے کی کوشش کی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ تو واحد ہے۔ وہی عبادت کے لائق ہے، کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا اس کو تو کسی نے پیدا نہیں کیا وہ ہر رشتہ سے بےنیاز ہے، بلکہ یہ تمام کائنات اس نے ہی پیدا کی ہے اور وہی اس سارے نظام کو چلا رہا ہے۔ جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقیناً موت آئے گی اور جو خود اپنی ہستی کو قائم نہ رکھ سکے وہ دوسری تمام مخلوقات کو کیسے زندہ رکھ سکتا ہے اور اس تمام نظام کائنات کو کیسے چلا سکتا ہے۔ اس پر وہ لاجواب ہوگئے اس آیت میں عیسائیوں کے عقائد کو غلط ثابت کیا گیا ہے، اور ان کے تین عقیدے مشہور ہیں۔ 1 تثلیث۔ یعنی خدا، عیسیٰ اور روح القدس تینوں مل کر ایک خدا تعالیٰ بنتے ہیں۔ 2 یہ کہ مسیح اللہ ہے وہ انسان کی شکل میں آئے ہیں۔ 3 یہ کہ مسیح اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ (نعوذباللہ) اس آیت سے عیسائیوں کے تینوں عقیدے غلط ثابت ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ماں کے ذریعہ سے ہوئی پھر وہ فنا ہو نگے۔ جبکہ اللہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو خود ہی ہو کوئی اس کو پیدا کرنے والا نہ ہو اور پھر وہ کبھی فنا نہ ہو۔ ہمیشہ رہنے والا ہو۔ کیونکہ اس تمام کائنات کو پیدا کرنا اور پھر چلانا کسی بھی ایسے فرد، نبی، رسول، چاند، سورج اور ستارے کا کام نہیں ہوسکتا جو خود پیدا کیا جائے اور پھر ختم بھی ہوجائے۔ بخران کے وفد کو سمجھ تو آگیا مگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایمان نہ لائے اور واپس چلے گئے۔ اس آیت میں توحید کا زبردست سبق دیا گیا ہے توحید کا سبق ایسا بنیادی سبق ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی رخ انسان کو نہیں ملتا۔ اسی لئے حضرت آدم سے لے کر محمد ﷺ تک تمام انبیاء نے سب سے پہلے توحید کا ہی سبق دیا۔ توحید کیا ہے ؟ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) پس اللہ وہ ہے جس کی عبادت کی جائے، جس کے بارے میں عقل حیران ہو، جس سے بےپناہ محبت ہو، جو اقتدار کا مالک ہو، حاجت روا حاکم، جس سے لوگ ڈریں، جو سب سے زیادہ طاقتور ہو، جو انتہائی رحیم و کریم ہو۔ ویسے تو ہر انسان خود ہی جانتا ہے کہ ایک اللہ موجود ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسان نے اپنے اردگرد غور سے دیکھا تو اس کی عقل نے اس بات کو مان لیا کہ اللہ واحد ہے۔ جب انسان نے دیکھا کہ سورج، چاند، ستارے، ہوا، پانی، نباتات، جمادات، حیوانات، غرض دنیا کی ہر چیز انتہائی مضبوط قوانین کی پابند ہے اور دنیا کا ایک ایک ذرہ اس مضبوط طاقت کے کنٹرول میں ہے۔ جس کو ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں۔ اسی غیبی طاقت، اسی پوشیدہ قوت، اسی خالق ومالک اور بزرگ ہستی کو قدیم زمانہ سے اللہ کہتے آئے ہیں۔ غرض بقول ڈاکٹر ہلوک نور باقی (ترکی) اپنی کتاب ” قرآنی آیات اور سائنسی حقائق “ میں لکھتے ہیں۔ ہر چیز اپنے وجود اور حیات کے لئے اس (اللہ) کی مرہون منت ہے، ہر چیز کو اس ہی کی ضرورت ہے۔ اسے خود کسی چیز کی ضرورت نہیں، وہی ایک ایسی ہستی ہے جس سے ہر کسی کو مدد مانگنی چاہئے۔ اسی طرح محمد منظور الحق ڈار صاحب فرماتے ہیں : ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں لیکن حقیقت میں ہم نے اللہ کے سوا بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں۔ انسان بالکل دیوانہ ہے۔ وہ ایک پتہ ایک چیونٹی تک تو بنا نہیں سکتا لیکن کئی اللہ بنا لیتا ہے۔ آج ہمارے ہاں اس بات کو سمجھنا مشکل ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے کے فرائض کیا بنتے ہیں۔ “ ڈاکٹر اقبال کے بقول یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا ڈار صاحب مزید لکھتے ہیں۔ ” کلمہ لا الٰہ الا اللہ، دین حق (اسلام) کا خلاصہ ہے۔ یہ تعلیمات اسلام کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی۔ “ حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی آخری بات جو موت سے پہلے اس کی زبان سے نکلے لا الٰہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (مسند احمد، ابو داؤد) اللہ تعالیٰ ہمیں سچے مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
Top