بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الف۔ لا ... م می ... م
” ا لٓمَّٓ“ حروف مقطعات میں سے ہے : 1: حروف مقطعات کی بحث سورة بقرہ کے حاشیہ ” 1 “ میں گزر چکی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ حروف جن سورتوں کے ابتداء میں آئے ہیں ان کے مضامین میں اس بات کی زندہ شہادت موجود ہے کہ ان حروف سے قارئین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آنے والے مضامین پر غور کرو۔ ان کو سرسری نظر سے پڑھ کر آگے مت نکل جاؤ ۔ زیر نظر سورة ہی پر غور کرو کہ کتنا اہم مضمون ابتدائے سورت ہی سے شروع ہوگیا ہے کہ عیسائی قوم کے لوگو ! ذرا خیال کرو کہ تم نے کس طرح مسیح (علیہ السلام) کو اللہ ، اللہ کا بیٹا یا اللہ کا ایک جزء تسلیم کرلیا جب کہ اللہ خالق ہے اور مسیح اس کی مخلوق ہے۔ چنانچہ احادیث اور کتب تفسیر میں اس کی پوری وضاحت موجود ہے کہ کچھ عیسائی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت کے متعلق مناظرہ کرنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ کی ابتدائی 84 آیات کریمان نازل فرمائیں۔ ابن اسحٰق نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے محمد بن سہل بن ابی امامہ نے کہا کہ جب نجران کے نمائندے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حضرت عیسیٰ بن مریم کے متعلق سوال کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو ان کے متعلق سورة آل عمران کے شروع سے 84 آیات تک نازل ہوئیں۔ پھر اس کی تفصیل بھی تفاسیر میں موجود ہے کہ ان کی تعداد ساٹھ تھی جن میں سے 14 شخص سردار تھے اور پھر ان میں سے تین ان کے لیڈر اور ایک ان سب کا بڑا امیر تھا۔ پھر اس مناظرہ کی پوری تفشیل بھی کتب تفاسیر میں موجود ہے۔ ہم انشاء اللہ انہی آیات کی تفسیر میں آگے چل کر اس کا مفصل بیان کریں گے۔ عرب کا نقشہ سامنے ہو تو جنوب میں جو علاقہ یمن کے نام سے موسوم ہے اس میں ایک مقام نجرات کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعث کے وقت یہ آبادی مسیحیوں کی تھی 10 ھ میں ان کے 14 اکابر وفد کی صورت میں جن کی کل تعداد ساٹھ کے قریب تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران گفتگو ان کے عقائد تثلیث و انبیت کی تردید ان ہی کی زبان سے واضح طور پر کرادی ۔ جس مقصد کو لے کر وہ حاضر ہوئے ان میں بری طرح ناکام ہوئے اور ایسے بھاگے کہ پھر کبھی اس بحث کو اٹھانے کا نام بھی نہ لیا۔ سورة آل عمران میں جابجا اشارے اسی طرح پائے جاتے ہیں۔ سورة بقرہ میں جس طرح اصل ختاب بنی اسرائَل کا شاخ یہود سے تھا اسی طرح اس سورة مبارکہ میں خطاب بنی اسرائیل کی شاخ نصاریٰ سے ہے اور اکثر مسیحیوں ہی کو مخاطب کیا گیا ہے۔
Top