بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 1
هُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
هُوَ الْحَيُّ : وہی زندہ رہنے والا لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا : سوائے هُوَ : اس کے فَادْعُوْهُ : پس تم پکارو اسے مُخْلِصِيْنَ : خالص کرکے لَهُ : اس کے لئے الدِّيْنَ ۭ : عبادت اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لئے رَبِّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
الم
اثبات توحید وبیان محکم درابطال الوہیت عیسیٰ بن مریم ومناظرہ نبی کریم ﷺ بانصارائے نجران۔ قال اللہ تعالی، الم اللہ لاالہ الاھوالحی۔۔۔ الی۔۔۔ الحکیم۔ محمد بن اسحاق وغیرہ سے منقول ہے کہ سورة آل عمران کے شروع کی تراسی آیتیں نصارائے نجران کے بارے میں نازل ہوئیں نجران علاقہ یمن میں ایک شہر کا نام ہے جو اس زمانہ میں عیسائیوں کا علمی مرکز تھا نبی کی نبوت و رسالت کی خبر جب اطراف اور اکناف میں پہنچی تو یہ خبر سن کر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد، مناظرہ اور مباحثہ کے لیے نبی کی خدمت میں حاضر ہوا مدینہ منورہ میں اس وفد میں ساتھ سوار تھے جن میں سے چودہ آدمی خاص طور پر بڑے شریف اور معزز تھے اور ان چودہ آدمیوں میں تین شخص ایسے تھے جو ان کا مرجع الامر تھے یعنی سب کاموری اور ملجا تھے تمام کام انہیں دین کے مشورہ سے ہوتے تھے این ان کا امیر اور سردار تھا جس کا نام عبدالمسیح تھا جو بڑا زیرک اور ہوشیار اور ذی الرائے تھا اور دوسرا اس کا وزیر ومشیر جس کا نام ایہم تھا اور تیسرا ان میں کا سب سے بڑاعالم اور پادری تھا جس کو وہ حبر اور سقف کہتے تھے اس کا نام ابوحارثہ بن علقمہ تھا شاہان روم اس پادری کے اس کے علم وفضل کی وجہ سے بڑی توقیر وتعظیم کرتے تھے اور عیسائی بادشاہوں اور امیروں کی طرف سے اسکو بڑی جاگیریں ملی ہوئی تھیں یہ لوگ حضرت مسیح کی الوہیت اور ابنیت کے قائل تھے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہتے تھے اور جب مدینہ منورہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی گفتگو کرنیوالے یہی تین آدمی تھے۔ عبدالمسیح، ایہم، ابوحارثہ۔ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے استدلال میں یہ کہا کہ، 1۔ عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بیماروں کو اچھا کرتے تھے۔ 3۔ عیسیٰ (علیہ السلام) غیب کی باتیں بتاتے تھے۔ 4۔ عیسیٰ (علیہ السلام) مٹی کی مورتیں بناتے اور پھر ان میں پھونک مارتے اور زندہ ہو کر وہ پرند بن جاتے۔ اور ان تمام چیزوں کا قرآن کریم نے اقرار کیا ہے لہذا ثابت ہوا کہ وہ خدا تھے اور حضرت عیسیٰ کے ابن اللہ ہونے پر اس طرح استدلال کیا کہ۔ وہ بلا باپ کے پیدا ہوئے معلوم ہوا کہ وہ خدا کے بیٹے تھے، نیز حضرت عیسیٰ نے گہوارہ میں کلام کیا ان سے پیشتر کسی نے گہوارہ میں کلام نہیں کیا یہ بھی خدا کے بیٹا ہونے کی دلیل ہے۔ اور مسئلہ تثلیث یعنی حضرت عیسیٰ کے ثالث ثلاثہ ہونے پر یہ استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ جابجا یہ فرماتے ہیں کہ فعلنا وامرنا وخلقنا وقضینا ہم نے یہ کام کیا کہ ہم نے یہ حکم دیا ہم نے یہ پیدا کیا ہم نے یہ مقدر کیا یہ تمام صیغے جمع کے ہیں اور جمع کا اول درجہتی ہے پس اگر اللہ تعالیٰ ایک ہوتا تو صیغہ جمع کا استعمال نہ ہوتا بلکہ بجائے صیغہ جمع کے مفرد کا صیغہ استعمال ہوتا اور یوں کہا جاتا فعلت وامرت وخلقت وقضیت میں نے کیا میں نے حکم دیا میں نے پیدا کیا میں نے مقدر کیا یہ اس مایہ ناز وفد کے استدلالات تھے جس کو اپنے علم پر فخر اور ناز تھا جن کی حقیقت اہل عقل اور اہل فہم کی نظر میں اوہام اور خیالات سے زیادہ نہیں اب آپ نبی ﷺ کے جوابات اور ارشادات کو سنیے۔ (1) ۔ آنحضرت ﷺ نے وفد سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے وفد نے کہا کہ کیوں نہیں ؟ اور یہ سب کے نزدیک مسلم ہے اللہ تعالیٰ بےمثل اور بےچون وچگون ہے کوئی شے اس کے مشابہ نہیں۔ (2) بعدازاں آپ نے وفد سے کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے کبھی بھی اس کو موت نہیں آسکتی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ضرورت موت اور فناآنے والی ہے یعنی قیامت سے پہلے وفد نے اقرار کیا کہ بیشک یہ صحیح ہے ایک نہ ایک وقت ان پر موت اور فنا ضرور آئے گی اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ پر موت اور فنا کا طاری ہونا ناممکن اور محال ہے۔ تنبیہ۔ نصاری کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مصلوب ومقتول ہو کر مرچکے ہیں لیکن حضور پرنور ﷺ نے ان کے الزامات کے لیے یہ نہیں کہا کہ تمہارے عیقدہ کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) کو موت آچکی ہے اس لیے کہ یہ امر خلاف واقعہ ہے عیسیٰ (علیہ السلام) نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور چند روز کے بعد وفات پائیں گے جیسا کہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے واضح ہے اس لیے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے وہ کلمہ نکلا جو واقع کے موافق تھا خلاف واقع چیز کا نبی برحق کی زبان سے نکلنا مناسب نہیں اگرچہ اس چیز کا ذکر محض بطور الزام ہو اور عجب نہیں کہ نصاری نے اس کا اقرار اس لیے کیا ہو کہ وہ اتنی بات کو غنیمت سمجھے اور یہ خیال کیا ہو کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق ہم پر الزام اور حجت اور بھی پوری ہوجائے گی نیز نصاری میں مختلف فرقے ہیں ایک فرقہ کا عقیدہ یہی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہونے کے بعد وفات پائیں گے پس ممکن ہے کہ اس وفد کے لوگ اسی عقیدہ کے ہوں جو اسلام کے مطابق ہے۔ (3) پھر آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کے وجود کو تھامنے والے اور اس کے محافظ اور نگہبان اور رزق رساں ہیں انہوں نے کہا بیشک آپ نے فرمایا کہ بتلاؤ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان میں سے کسی چیز کے مالک اور قادر ہیں یعنی کیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی مخلوقات کو وجود عطا کیا ہے اور اپنی قدرت سے ان کے لیے سامان بقاپیدا کیا ہے انہوں نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) تو ان چیزوں پر قادر نہیں پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر زمین اور آسمان کی کوئی چیزمخفی نہیں انہوں نے کہا بیشک آپ نے فرمایا کہ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان میں سے بجز اس چیز کے جس کا اللہ نے ان کو علم دیا تھا کوئی اور شے بھی جانتے تھے انہوں نے کہا نہیں۔ (5) پھر آپ نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی مریم کے رحم میں اپنی مرضی کے موافق صورت بنائی (6) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے اور نہ پاخانہ اور پیشاب کرتا ہے انہوں نے کہا بےشک۔ (7) پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اسی طرح حاملہ ہوئیں جس طرح ایک عورت اپنے بچہ کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اس کو جنتی ہے اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور بچوں کی طرح ان کو غذا دی گئی اور پھر بڑے ہوئے اور وہ کھاتے تھے اور پیتے تھے اور پیشاب اور پاخانہ بھی کرتے تھے انہوں نے کہا بیشک ایسے ہی تھے۔ (8) ۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم کو ان سب باتوں کا اقرار ہے تو بتاؤ کہ ایسا ہو کہ عیسیٰ خدا کیسے ہوئے جیساتمہارا گمان ہے پس آپ کے اس ارشاد سے ان لوگوں نے حق کو خوب پہچان لیا مگر جان بوجھ کر انکار کیا اس پر اللہ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں، الم اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم۔ الخ۔ الم۔ اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں الوہیت اور خدائی اسی کے لیے مخصوص ہے اس لیے کہ وہ بذاتہ زندہ ہے اور اس کی حیات ازلی اور ابدی ہے موت اور فنا کا اس کی ذات اور صفات میں کہیں امکان نہیں، اور وہی تمام کائنات کے وجود اور حیات کو تھامنے والا اور قائم رکھنے والا ہے۔ پناہ بلندی و پستی توئی، ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی، قرار ہمہ ہست برنیستی، توئی آنکہ یک برقرار ایستی۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات نہ ذاتی ہے اور نہ ازلی اور ابدی اللہ تعالیٰ کے زندہ کرنے سے وہ زندہ ہوئے ان کی حیات اور ان کی زندگی بلاشبہ حادث اور فانی ہے اور جس کا وجود اور جس کی حیات حادث اور فانی ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا اور علی ہذا عیسیٰ (علیہ السلام) نے نہ تو مخلوقات کو کوئی وجود اور حیات عطا کی اور نہ ان کے لیے کوئی سامان حیات پیدا کیا اور نہ وہ کائنات کے وجود کے تھامنے اور قائم رکھنے پر قادر ہیں لہذا خدا کیسے ہوسکتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہیں جس نے بندوں کی ہدایت کے لیے آپ پر ایک کتاب اتاری جو حق اور سچائی کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے جو اس کی صفت کلام کا آئینہ ہے اور اس کے احکام اور قوانین کا ایک مجموعہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ وہ گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق و توثیق کرنے والی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس قرآن سے پہلے توریت اور انجیل کو لوگوں کی ہدایت کے لیے اتارا اور اللہ کی طرف سے پیغمبروں پر کتابوں کا اترنا یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اللہ رب العالمین احکم الحاکمین ہے اور انبیاء مرسلین خدا نہیں بلکہ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں جو احکام خداوندی کے پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں اگر خدا ہوتے تو ان پر اللہ کی وحی اور اس کی کتاب نازل نہ ہوتی وحی کا نزول بندہ پر ہوتا ہے خدا پر وحی نازل نہیں ہوتی۔ نیز کتب الٰہیہ اور صحف سماویہ سب کی سب توحید پر متفق ہیں کماقال تعالی، وماارسلناک من قبلک من رسول الانوحی۔۔۔ الی۔۔ انا فاعبدون۔ لہذا تثلیث اور ابنیت کا عقیدہ تمام کتب الٰہیہ کے خلاف ہے۔ اور اتارے اللہ نے معجزات تاکہ حق اور باطل کا خوب فرق ظاہر ہوجائے اور دشمنان حق اس کے مقابلہ سے عاجز ہو کر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور انبیاء کرام کی نبوت و رسالت کا یقین کریں معجزات اور خوارق عادات ایک طرف خدواند یکتا کی وحدانیت اور قدرت کی دلیل ہیں اور ایک طرف انبیاء کرام کی نبوت و رسالت کی برھان ہیں۔ لہذا تحقیقی جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا انکار کیا اور خوارق عادات کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء کرام کی نبوت کے قائل نہ ہوئے یعنی ان کو خدا کا برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ اور فرستادہ خداوندی نہ مانا ان کے لیے نہایت سخت عذاب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ عزت والا اور زبردست اور صاحب انتقام ہے جو شخص اس کے مقابلہ کے لیے سراٹھاتا ہے اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اس عزیز مقتدر کے پنجہ قدرت سے نکل نہیں سکتا اور نہ اس عزیز منتقم کے انتقام سے بچ کر بھاگ سکتا ہے اس جملہ میں بھی حضرت عیسیٰ کے ابطال الوہیت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے وہ یہ کہ نصاری کے نزدیک حضرت مسیح صلیب پر لٹکائے گئے اور ایلی ایلی کہتے جان دے دی اور اپنے آپ کو دشمنوں کے پنجہ ظلم سے نہ چھڑاسکے اور نہ ان سے کوئی انتقام لے سکے پس ایک عاجز اور مظلوم اور مغلوب کو جس پر اس کے دشمن غالب آگئے ہوں خدا کہنا یاخداوندقادر مطلق کا بیٹاکہنا کیا کھلی ہوئی نادانی نہیں عقلاء اور عالم کے نزدیک خدائی اور ذلت کا جمع ہونا ناممکن اور محال ہے خدا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عزیز مقتدر ہو البتہ نصار کے نزدیک خدا کا دشمنوں کے ہاتھ سے ذلیل ہونا ممکن ہے تحقیق اللہ تعالیٰ پر زمین اور آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں گزشتہ آیت میں اللہ کی اقتدار کامل اور اختیار کامل کو بیان فرمایا اب اس آیت میں اس کے علم کامل کو بیان فرماتے ہیں یعنی جس طرح اس کی قدرت ازلیہ تمام ممکنات کو محیط ہے اسی طرح اس کا علم بھی محیط ہے کوئی چھوٹی اور بڑی چیز اس کے علم سے غائب اور پوشیدہ نہیں اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ لسلام کو ایسا علم محیط حاصل نہ تھا صرف اسی قدر جانتے تھے جتنا اللہ تعالیٰ نے ان کو بتلا دیا تھا اور نصاری نجران نے خود اس کا اقرار کیا اور موجودہ اناجیل سے بھی یہی ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) عالم الغیب نہ تھے بہت سی چیزیں ان پر مخفی رہتی تھی اللہ کی وحی اور روح القدس کے رہنمائی سے معلوم ہوتی تھیں۔ وہی خدا رحموں میں تمہاری صورتیں اور نقشے جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے کسی کو مرد اور کسی کو عورت کسی کو خوبصورت اور کسی کو بدصورت پس کیا جس کی صورت اور نقشہ رحم مادر میں بنا ہو اور بطن مادر کی تاریکیوں سے نکل کر وہ اس دار فانی میں آیا ہو اور عام بچوں کی طرح کھاتا اور پیتا اور پاخانہ اور پیشاب کرتا ہو معاذ اللہ وہ کس طرح خدائے قدوس اور خدا کا بیٹا ہوسکتا ہے خدا وہ ہے کہ جو اپنے اردہ اور مشیت سے رحم مادر میں صورتیں اور نقشے بنائے اور جو نقشہ اور صورت رحم مادر میں بنا ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا کیونکہ جو صورت بنتی ہے وہ مخلوق ہے اور خالق کی محتاج ہے اور خدا محتاج نہیں ہوتا اس لیے کہ ان صفات میں کوئی اس کا شریک اور سہیم نہیں لہذا وہی سزا اور ربوبیت اور شایان عبودیت ہے۔ خلاصہ کلام۔ یہ کہ خداوند قدوس ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی سب پر غالب ہے اور بڑی حکمت والا ہے جس کی قدرت اور حکمت کی کوئی انتہاء نہیں اس نے کسی حکمت اور مصلحت سے حضرت مسیح کو بدون باپ کے اور حضرت حواء کو بدون ماں کے اور حضرت آدم کو بدون باپ اور ماں کے پیدا کیا جس مخلوق کو جس طرح چاہا پیدا فرمایا اس کی حکمتوں کا کون احاطہ کرسکتا ہے۔ کس نکشود ونکشاید بحکمت ایں معمارا۔ فوائد ولطائف۔ 1۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس سورت کا آغاز نہایت عجیب و غریب ہے جو اثبات توحید اور اثبات رسالت دونوں پر مشتمل ہے۔ اثبات توحید تو اس اعتبار سے ہیں کہ صفات خداوندی کے بیان پر مشتمل ہے خدا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ حی اور قیوم اور عالم الغیب اور عزیز منتقم ہو اور رحم مادر میں اولاد کی تصویر بنانے پر قادر ہو اور عیسیٰ (علیہ السلام) میں یہ صفات موجودنہ تھیں لہذا ثابت ہوگیا کہ وہ خدا نہ تھے (جیسا کہ تفصیل پہلے گذرچ کی ہے) ۔ اور اثبات رسالت کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا نبی اور رول ہونا اور توریت اور انجیل کا ان پر نازل ہونا تم کو بھی تسلیم ہے اب بتلاؤ کہ توریت اور انجیل کے کتاب الٰہی ہونے کی کیا دلیل ہے جو دلیل ان کے لیے ہے قرآن کے لیے اس سے ہزار درجہ بڑھ کر دلائل موجود ہیں اور جس دلیل سے تم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی مانتے ہو اسی طرح کی دلیل سے محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور و رسالت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ناچیز کہتا ہے کہ اثبات توحید اور اثبات رسالت کے علاوہ اثبات قیامت کی طرف بھی اشارہ ہے ھوالذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء۔ اثبات قیامت کی دلیل ہے کہ جو خدا اپنی قدرت کاملہ سے پہلی مرتبہ زندہ کرنے پر قادر ہے وہ دوسری مرتبہ بھی زندہ کرنے پر قادر ہے اس طرح اس سورت کے مطلع میں اسلام کے اصول ثلاثہ توحید اور رسالت اور قیامت کے اثبات کے دلائل کی طرف اجمالی اشارہ ہوگیا۔
Top