Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 33
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ۚ وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ
جَنّٰتُ عَدْنٍ : باغات ہمیشگی کے يَّدْخُلُوْنَهَا : وہ ان میں داخل ہوں گے يُحَلَّوْنَ : وہ زیور پہنائے جائیں گے فِيْهَا : ان میں مِنْ : سے ۔ کا اَسَاوِرَ : کنگن (جمع) مِنْ : سے ذَهَبٍ : سونا وَّلُؤْلُؤًا ۚ : اور موتی وَلِبَاسُهُمْ : اور ان کا لباس فِيْهَا : اس میں حَرِيْرٌ : ریشم
(ان لوگوں کے لئے) بہشت جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کی پوشاک ریشمی ہوگی
33 تا 35۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کا وارث کیا یہ ان کا حال ہے کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے فضل سے جنت میں داخل ہوں گے اور ان کو سونے اور موتی کے کنگن اور ریشمی کپڑے پہنائے جائیں گے اسی واسطے دنیا میں مردوں پر یہ دونوں چیزیں حرام ہیں چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت علی ؓ سے روایت 3 ؎ ہے (3 ؎ مشکوۃ ص 378 باب الخاتم فصل 2‘) جس میں آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ میں سونا اور دوسرے ہاتھ میں ریشمی کپڑے کر یہ فرمایا کہ میری امت کے مردوں پر دنیا میں دونوں چیزیں حرام ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عمر ؓ سے روایت 4 ؎ ہے (4 ؎ مشکوۃ ص 373۔ ) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا میں ریشمی کپڑا پہنے گا اس کو جنت میں ریشمی لباس نہ ملے گا صحیح بخاری ومسلم میں اسی مضمون کی روایت انس بن مالک ؓ سے بھی ہے صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ مشکوۃ ص 374) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا چار انگل تک کے ریشمی کپڑے کی گوٹ وغیرہ مرد کو جائز ہے تار رشیم اور اون وغیرہ کو ملا کر جو کپڑا بنا جاوے اس کا استعمال صحابہ ؓ نے جائز رکھا ہے صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے (2 ؎ صحیح بخاری ص 871 ج 2 باب خرا تیہم الذہب) جس میں آنحضرت ﷺ نے سونے کی انگوٹھی کی مردوں کو ممانعت فرمائی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حذیفہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے (3 ؎ ایضا ص 841 ج 2 باب الثب فی آیتہ الزہب) جس میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی بھی اس لیے دنیا میں مناہی کی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوموسیٰ اشعری سے جو روایت 4 ؎ ہے (4 ؎ مشکوۃ ص 496 باب صفۃ الحنۃ۔ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں کھانے پینے کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے ‘ دنیا میں آدمی کو معیشت کا جانی اور مالی نقصانات کا خاتمہ بخیر ہونے کا اور عبادت کے قبول ہونے کا اسی طرح طرح طرح کا فکر وغم تھا جنت میں داخل ہونے کے بعد یہ سب غم جاتے رہیں گے اس لیے جنتی لوگ اللہ تعالیٰ شکرادا کریں گے اور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے کہ اس نے ہمارے گناہ معاف کر دئے اور وہ بڑا قدرد ان ہے کہ اس نے ہماری تھوڑی سی عبادت کے بدلہ میں ہم کو جنت جیسا مقام عنایت فرمایا کہ جہاں بےمحنت اور مشقت کے ہم ہمیشہ رہیں گے ‘ صحیح بخاری مسلم ترمذی 5 ؎ وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ اور ابوسعید خدری ؓ کی روایتیں گزر چکی ہیں (5 ؎ ایضا باب صفۃ الجنۃ واہلہا۔ ) کہ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے ہی فرشتے پکار پکار کر یہ کہیں گے اے جنتیو اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی تم کو کوئی بیماری نہ ہوگی ہمیشہ زندہ رہوگے کبھی موت کو صورت نہ دیکھو گے کیوں کہ موت کو ذبح کردیا گیا ہمیشہ جو ان رہو گے کبھی بڈھے نہ ہوگے ہمیشہ خوش حال رہوگے کبھی کوئی رنج وغم پاس نہ آوے گا۔ فرشتوں سے یہ خوشی کی باتیں سن کر جنتی لوگ اللہ تعالیٰ کا وہ شکریہ ادا کریں گے جس کا ذکر آخر آیت میں ہے۔
Top