Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
21۔ 23۔ عقبیٰ میں ماں باپ سے اولاد کو اور اولاد سے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے فائدہ پہنچائے گا چناچہ تفسیر ابن ابی حاتم اور طبرانی 1 ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے اس آیت کی تفسیر یوں ہے کہ قیامت کے دن بعض جنتی لوگ جنت میں داخل ہونے کے بعد اپنے ماں باپ اور بی بی بچوں کا حال فرشتوں سے پوچھیں گے کہ وہ سب کہاں ہیں فرشتے کہیں کے ان کے اعمال اس قابل نہ تھے کہ اس درجہ کی جنت میں وہ داخل ہوتے یہ جنتی لوگ اللہ سے دعا کریں گے اس پر اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک جگہ اعلیٰ درجہ کی جنت میں اکٹھا کر دے گا۔ طبرانی کی سند میں ایک راوی محمد بن عبد الرحمن بن غزوان ضیفد ہے۔ لیکن یہ روایت مسند 2 ؎ بزار میں بھی ہے اس میں یہ راوی نہیں ہے۔ اس بزار کی روایت اور ابن ابی حاتم کی روایت سے طبرانی کی سند کا ضعف بھی ہلکا ہوجاتا ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد 3 ؎ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بعض جنتی لوگوں کا درجہ ایک ایک ہی بڑھ جائے گا وہ لوگ کہیں گے یا اللہ ہمارے اعمال تو اس قابل نہ تھے یہ ہمارا درجہ کیونکر بڑھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری اولاد نے تمہارے حق میں دعا کی تھی اس لئے تمہارا درجہ بڑھا ہے۔ جس شخص کے تین یا دو نابالغ بچے مرجائیں اس کا جنتی ہونا اوپر حضرت حضرت ابوہریرہ کی صحیحین اور صحیح 4 ؎ مسلم کی حدیث میں گزر چکا ہے اور مسند امام 5 ؎ احمد اور ابو داؤود کی حضرت معاذجہنی کی حدیث بھی اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جن کی اولاد قرآن شریف پڑھ کر اس کی موافق عمل کرے گی ان کے ماں باپ کے سروں پر قیامت کے دن ایسا تاج رکھا جائے گا جس کی روشنی آفتاب سے بڑھ کر ہوگی اب آگے ماں باپ کی یہ تسلی بھی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جنتی ماں باپ کی اولاد کو یہ درجہ محض اپنی رحمت سے دے گا تاکہ اولاد کے اور ماں باپ کے ایک جگہ ہوجانے سے ماں باپ کا دل خوش ہوجائے اس درجہ کے معاوضہ میں ماں باپ کے عملوں میں سے کوئی عمل نہ گھٹایا جائے گا۔ معتبر سند سے تفسیر عبد الرازق اور تفسیر ابن ابی حاتم میں امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس کا جو قول ہے اس کے موافق آیت کے یہی معنی ہیں جو بیان کئے گئے ہر آدمی اپنی کمائی میں پھنسا ہے کا یہ مطلب ہے کہ ہر شخص کا عمل اس کے ساتھ ہے اگر نیک عمل ہے تو نجات کا سبب ہے ورنہ ہلاک کا۔ مسند 7 ؎ امام احمد اور ابو دائود میں معتبر سند سے براء بن عازب کی ایک بڑی حدیث ہے۔ اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد نیک شخص کی قبر میں ایک اچھی صورت کا آدمی آتا ہے اور کہتا ہے میں تیرا نیک عمل ہوں۔ یہ شخص اپنی عمل کی حالت سے خوش ہو کر قیامت کے جلدی قائم ہونے کے ہر وقت دعا مانگتا رہتا ہے اور بد لوگوں کا حال قبر میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ سورة مدثر میں آئے گا کہ جن کے نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ اپنے نیک عمل کے سبب رہائی پائیں گے۔ اور سیدھے ہاتھ کے اعمال نامے والے حساب و کتاب اور وزن اعمال تک ایک حالت منتظرہ میں رہ کر پھر جنت میں چلے جائیں گے غرض یہ ہے کہ ایک آیت مختصر ہے اور دوسری آیت مفصل۔ دونوں آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ بیہقی 1 ؎ نے نے معتبر سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت بیان کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت کے میوے جنت کے کھانے جنت کی شراب غرض جنت کی سب چیزیں دنیا کی سب چیزوں سے بالکل مزہ میں الگ ہیں۔ دنیا کی چیزوں سے فقط ان کے نام ملتے ہوئے ہیں اسی لئے جنت کے میوے اور کھانے وغیرہ کو دنیا کے میوے اور کھانے سے تشبیہ دے کر کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ دنیا کی شراب پینے کے بعد جس طرح آدمی کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی اور بےہودہ باتیں اس کے منہ سے نکلنے لگتی ہیں جنت کی شراب میں یہ بات نہیں ہے جام شراب کا دور پر دور چلے گا اور کبھی کوئی بےہودہ بات کسی جنتی کے منہ سے نہ نکلے گی۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 242 ج 4۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 242 ج 4۔ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 242 ج 4۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم باب فضل من یموت لہ ولد فیحتسبہ ص 330 ج 2۔ ) (5 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب فضائل القرآن۔ فصل ثانی ص 186۔ ) (6 ؎ تفسیر ابن کثر ص 341 ج 4۔ ) (7 ؎ مشکوٰۃ شریف باب فیما یقال عند من حضرۃ الموت فصل ثالث ص 142۔ ) (1 ؎ الترغیب و الترہیب۔ فضل فی ان اعلیٰ مایخطر علی البال اویجوزہ العقل الخ ص 1039 ج 4۔ )
Top