Tafseer-e-Mazhari - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنابھم ذریتھم وما التناھم من عملھم من شی . اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا ہم ان کی اولاد کو بھی (درجہ میں) ان کے ساتھ شامل کردیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ کم نہیں کریں گے۔ ذُرِّیَّتُھُمْ : ذرّیت کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور زیادہ پر بھی۔ بِاِیْمَانٍ : تنوین تنکیر یہ بتارہی ہے کہ (درجہ میں) شامل کرنے کے لیے صرف ایمان کافی ہوگا بلکہ ایمان حکمی بھی الحاق کے لیے کافی ہے جیسے بچہ کا ایمان اور جنون کی حالت کا ایمان۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ مؤمنوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان کی اولاد کا درجہ اونچا کر دے گا ‘ خواہ ان کی اولاد درجہ میں ان سے کم ہو ‘ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (رواہ الحاکم والبیہقی فی السنن والبزار و ابو نعیم فی الحلیۃ و ابن المنذر و ابن جریر و ابن ابی حاتم) حضرت علی ؓ راوی ہیں کہ امّ المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے ان دو بچوں کے متعلق دریافت کیا جو جاہلیت (اسلام سے پہلے) کے زمانے میں مرچکے تھے۔ فرمایا : وہ دونوں دوزخ میں ہوں گے۔ جب اس بات سے حضرت خدیجہ ؓ کے چہرے پر ناگواری کے آثار حضور ؓ نے ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا : اگر تم بھی ان کی جگہ (یا حالت) کو دیکھ لو گی تو ان سے نفرت کرو گی۔ حضرت خدیجہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری جو اولاد آپ سے تھی اس کا کیا ہوگا ؟ فرمایا : وہ جنت میں ہوگی ‘ پھر فرمایا : مؤمن مرد اور ان کی اولاد جنت میں ہوگی اور مشرک مرد اور ان کی اولاد دوزخ میں۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے آیت : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْ حَقْتَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ : رواہ عبداللہ بن احمد فی الزوائد تلاوت فرمائی۔ اس روایت میں بعض راوی مجہول ہیں اور سلسلۂ سند بھی متصل نہیں ہے۔ فصل حدیث مذکور سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکوں کے بچے دوزخ میں ہوں گے مگر صحیح یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے جنت میں ہوں گے۔ رہی حدیث مذکور تو اس کی روایت میں انقطاع ہے اور بعض راوی مجہول بھی ہیں۔ امام احمد (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا ‘ فرمایا : اگر تم چاہو تو میں دوزخ کے اندر ان کی چڑھائی (کی آواز) تم کو سنوا دوں۔ اس حدیث کی سند میں بہت ہی ضعف ہے۔ بعض نے کہا : مشرکوں کے بچوں کے متعلق یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ ابن عبدالبر نے ضعیف سند سے حضرت عائشہ ؓ ہی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ نے مشرکوں کی اولاد کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ‘ فرمایا : وُ ہ اپنے آباء سے ہیں (یعنی باپوں کے حکم میں ہیں ( کچھ مدت کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے پھر دریافت کیا تو فرمایا : اللہ ہی کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ (زندہ رہتے تو) کیا کرتے ؟ کچھ مدت کے بعد پھر یہی سوال کیا تو آیت : وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا : وہ فطرت اسلام پر ہوں گے یا فرمایا : جنت میں ہوں گے۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے اپنے رب سے نسل انسانی کے ان بچوں کے متعلق مانگ کی جو کھیلنے والے ہوں۔ اللہ نے مجھے وہ عطا فرما دیئے (یعنی ان کو جنتی بنا دیا) ۔ ابن عبدالبر نے کہا : کھیلنے والوں سے مراد ہیں بچے کیونکہ ان کے کام بےعقلی کے کھیل کود کی طرح ہوتے ہیں ‘ عزم کے ساتھ نہیں ہوتے۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ حضرت سمرہ ؓ نے فرمایا : ہم نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کے متعلق دریافت کیا ‘ فرمایا : وہ جنت والوں کے خادم ہوں گے۔ ابن جریر نے ایسی ہی حدیث حضرت ابن مسعود ؓ سے موقوفاً بھی بیان کی ہے۔ طیالسی نے حضرت انس ؓ کی روایت سے اسی کی ہم معنی حدیث نقل کی ہے ‘ بعض علماء کا خیال ہے کہ مشرکوں کے بچوں کی جانچ کی جائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ‘ اللہ ہی کو علم ہے کہ وہ (جوان ہو کر) کیا کرنے والے ہوتے۔ (متفق علیہ من حدیث ابی ہریرہ ؓ مَا اَلَتْنٰھُمْ : یعنی ان کے باپوں کے اعمال کے ثواب میں ہم کوئی کمی نہیں کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ مؤمن اولاد کو ان کے باپوں کے ساتھ شامل کردینے اور درجہ میں ان کے ساتھ ملا دینے سے ان کے آباء کے اعمال کے ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔ مؤمن اور اسکی مؤمن اولاد کا حکم تو آیت مذکورہ سے معلوم ہوگیا۔ رہے بدکار لوگ تو انکی حالت اگلی آیت میں بیان فرمائی گئی ہے۔ کل امریء بما کسب رھین . ہر شخص اپنے (کفریہ) اعمال میں محبوس ہوگا۔ مقاتل نے کہا ہر شخص سے مراد ہے ہر کافر یعنی ہر کافر اپنے عمل شرک کی پاداش میں دوزخ کے اندر محبوس ہوگا۔ اس کی یہ سزا دوسرے کو نہیں پہنچے گی ‘ لہٰذا کافر اور فاسق کے ساتھ اس کی اولاد کو بغیر عمل کے شامل نہیں کیا جائے گا۔
Top