Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہٴ  ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملادیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی  گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ 15 ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ 16
سورة الطُّوْر 15 یہ مضمون اس سے پہلے سورة رعد آیت 23، اور سورة مومن آیت 8 میں بھی گزر چکا ہے، مگر یہاں ان دونوں مقامات سے بھی زیادہ ایک بڑی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ سورة رعد والی آیت میں صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ اہل جنت کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے جو جو افراد بھی صالح ہوں گے وہ سب ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔ اور سورة مومن میں ارشاد ہوا تھا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اور ازواج اور آباء میں سے جو صالح ہوں انہیں بھی جنت میں ان سے ملا دے۔ یہاں ان دونوں آیتوں سے زائد جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو آباء کا ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہوگا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جائے گی۔ اور یہ ملانا اس نوعیت کا نہ ہوگا جیسے وقتاً فوقتاً کوئی کسی سے جا کر ملاقات کرلیا کرے، بلکہ اس کے لیے اَلْحَقْنَا بِھِمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے۔ اس پر مزید یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اولاد سے ملانے کے لیے آباء کا درجہ گھٹا کر انہیں نیچے نہیں اتارا جائے گا، بلکہ آباء سے ملانے کے لیے اولاد کا درجہ بڑھا کر انہیں اوپر پہنچا دیا جائے گا۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ارشاد اس بالغ اولاد کے بارے میں ہے جس نے سنِ رُشد کو پہنچ کر اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لانے کا فیصلہ کیا ہو اور جو اپنی مرضی سے اپنے صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلی ہو۔ رہی ایک مومن کی وہ اولاد جو سن رشد کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی ہو تو اس کے معاملہ میں کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے تو ویسے ہی جنت میں جانا ہے اور اس کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ رکھا جانا ہے۔ سورة الطُّوْر 16 یہاں " رہن " کا استعارہ بہت معنی خیز ہے۔ ایک شخص اگر کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے اس وقت تک فکِّ رہن نہیں ہو سکتا، اور اگر مدت مقررہ گزر جانے پر بھی وہ فکِّ رہن نہ کرائے تو شئے مرہونہ ضبط ہوجاتی ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان معاملہ کی نوعیت کو یہاں اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ خدا نے انسان کو جو سرو سامان، جو طاقتیں اور صلاحیتیں اور جو اختیارات دنیا میں عطا کیے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو مالک نے اپنے بندے کو دیا ہے، اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر بندے کا نفس خدا کے پاس رہن ہے۔ بندہ اس سرو سامان اور ان قوتوں اور اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ نیکیاں کمائے جن سے یہ قرض ادا ہوسکتا ہو تو وہ شئے مرہونہ، یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا، ورنہ اسے ضبط کرلیا جائے گا۔ پچھلی آیت کے معاً بعد یہ بات اس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مومنین صالحین خواہ بجائے خود کتنے ہی بڑے مرتبے کے لوگ ہوں، ان کی اولاد کا فکِّ رہن اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ وہ خود اپنے کسب سے اپنے نفس کو چھڑائے۔ باپ دادا کی کمائی اولاد کو نہیں چھڑا سکتی . البتہ اولاد اگر کسی درجے کے بھی ایمان اور اتباع صالحین سے اپنے آپ کو چھڑا لے جائے تو پھر یہ اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے کہ جنت میں وہ اسکو نیچے کے مرتبوں سے اٹھا کر اونچے مراتب میں باپ دادا کے ساتھ لے جا کر ملا دے۔ باپ دادا کی نیکیوں کا یہ فائدہ تو اولاد کو مل سکتا ہے، لیکن اگر وہ اپنے کسب سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ باپ دادا کی خاطر اسے جنت میں پہنچا دیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ کم درجے کی نیک اولاد کا بڑے درجے کے نیک آباء سے لے جا کر ملا دیا جانا دراصل اس اولاد کے کسب کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان آباء کے کسب کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے عمل سے اس فضل کے مستحق ہوں گے کہ ان کے دل خوش کرنے کے لیے ان کی اولاد کو ان سے لا ملایا جائے۔ اسی وجہ سے اللہ ان کے درجے گھٹا کر انہیں اولاد کے پاس نہیں لے جائے گا بلکہ اولاد کے درجے بڑھا کر ان کے پاس لے جائے گا، تاکہ ان پر خدا کی نعمتوں کے اتمام میں یہ کسر باقی نہ رہ جائے کہ اپنی اولاد سے دوری ان کے لیے باعث اذیت ہو۔
Top