Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے، اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی جمع کردیں گے اور ان کے عمل میں سے ذرا بھی کمی نہیں کریں گے۔ ہر ایک اس کمائی کے بدلے میں گرد ہوگا جو اس نے کی ہو گی
(والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنابھم ذریتھم وما التتھم من عملھم من شئی کلی امری بما کسب رہین (21) (اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لیے ایک بشارت)۔۔ جنت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لیے جو اہتمام فرمائے گا اسی سلسلہ میں یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ ان کی اولاد میں سے جس نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہوگی اللہ تعالیٰ ان کو بھی ان کے ساتھ ملا دے گا اگرچہ وہ ایمان و عمل کے اعتبار سے ان کے درجے کے مستحق نہ ہوں۔ اس یکجائی کے لیے ضابطہ یہ بیان فرمایا کہ (وما التنھم من عملھم من شئی) اولاد کے ایمان کے کسر کا جبران کے والدین کے عمل میں کمی کر کے نہیں کیا جائیگا۔ وہ اپنے اسی مرتبہ پر سرفراز رہیں گے جس کے وہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے مستحق قرار پائے ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے ان کی اولاد کے درجے کو اونچا کر دے گا۔ (واتبعتھم ذریتھم بایمان) میں لفظ ایمان کی قید سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ رعایت صرف اسی اولاد کے لیے خاص ہے جس نے ایمان کے ساتھ اپنے بزرگ کی اتباع کی ہو، اگر وہ ایمان سے محروم ہو تو اس رعایت کی مستحق نہیں ہوگی اگرچہ وہ ان کے اتباع کی کتنی ہی بلند آہنگی کے ساتھ مدعی ہو۔ لفظ ایمان کی تنکیر سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس کے مدارج ہیں۔ اگر اولاد کو ایمان کا وہ ادنیٰ درجہ بھی حاصل ہوا جو اس کو جنت کے کی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا بھی مستحق ٹھہراتا ہے تو وہ اس رعایت کی مستحق قرار پائے گی۔ (نجات سے متعلق اصل ضابطہ) (کل امری بما کسب رہین) یہ نجات سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اصل ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کے عوض گرد ہے۔ عمل ہی چھڑائے گا، عمل ہی ہلاک کرے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ ایمان و عمل کے بغیر محض نیکوں سے ظاہری نسبت رکھنے کے سبب سے کوئی جنت میں ان کے پاس پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل انہی پر فرمائے گا جو اپنے ایمان و عمل سے اس کا استحقاق پیدا کریں گے۔ اس میں یہود اور مشرکین عرب دونوں کو تنبیہ ہے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے دین کو تو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا لیکن محض ان سے نسبی رکشتہ کے بل پر جنت کے اعلیٰ مقامات پانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ جب نجات کے باب میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کے عوض میں گرد ہے تو اولاد کا اپنے سے برتر درجے کے بزرگوں کی صفت میں جا پہنچنا کس بنیاد پر ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلق رکھنے والا ہے جو اس نے اپنے باایمان بندوں کے لیے خاص رکھا ہے۔ اس سے اس ضابطہ کی نفی نہیں ہوتی جو (امری بما کسب رہین) کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ نجات تو بیشک کسی کو ایمان و عمل کے بغیر حاصل ہونے والی نہیں ہے لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کے مراتب و مدارج میں اپنے فضل سے اضافہ بھی نہیں فرمائے گا۔ ان دونوں چیزوں کے دائرے الگ الگ ہیں۔ ان میں باہمدگر کوئی تناقض نہیں ہے۔ (ایک اور استنباط)۔۔ اس آیت سے یہ بات بھی مستنبط ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح والدین کی خوشی کی تکمیل کے لیے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جمع کر دے گا اگرچہ اولاد اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے ان کے مرتبہ کی سزا اور نہ ہو۔ اسی طرح بلند مرتبہ اولاد کی مسرت کی تکمیل کے لیے ان کے ساتھ ان کے باایمان والدین کو بھی جمع کردے گا اگرچہ والدین اپنے ایمان و عمل کے لحاظ سے ان کے درجے کے حق دار نہ ہوں۔ اس استنباط کی دلیل یہ ہے کہ جو تعلق خاطر والدین اور ان کی اولاد کے درمیان پایا جاتا ہے وہی تعلق خاطر اس دوسری صورت میں بھی موجود ہے۔ (اس بشارت کا موقع و محل)۔۔۔ یہاں اس بشارت کا موقع و محل بھی قابل توجہ ہے۔ اگر کسی شخص کے اندر سچا ایمان ہے تو وہ اپنی اولاد سے متعلق سب سے زیادہ فکر مند اس بات کے لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آخرت کے ہول اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ یہ ارمان کہ اولاد کو دنیوی کامیابیاں حاصل ہوں گی اگر ہوتا بھی ہے تو اس کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے، چناچہ حضرات انبیاء اور صالحین نے اپنی اولاد کے لیے جو دعائیں فرمائی ہیں ان میں آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھا ہے بلکہ اس چیز کو اصل کی حیثیت دی ہے۔ یہی حال ان لوگوں کا تھا جو اس دور میں نبی ﷺ کی دعوت سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان کے قلوب جب نور ِ ایمان سے منور ہوئے تو ان کو سب سے زیادہ تشویش اپنی اولاد کے دنیوی مستقبل سے متعلق نہیں بلکہ اس کے اخروی انجام سے متعلق ہوئی۔ ان کی اس تشویش کا اظہار آگے اسی سورة کی آیت 26 (انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین) (بیشک ہم اس سے پہلے اپنے اہل و عیال کے اندر چوکنے اور خبر دار رہے ہیں) سے ہوتا ہے۔ اس آیت کے تحت ہم انشاء اللہ واضح کریں گے کہ اس میں جس ڈریا تشویش کا حوالہ ہے اس سے مراد ان کا یہ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جس گلے کا چرواہا بنایا ہے اس کی کوئی بھیڑ بھیڑیے کا لقمہ نہ بنے بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو جاہلیت کی تاریکی سے نکال کر صراط مستقیم کی ہدایت بخشی ہے اسی طرح ان کی اولاد کو بھی ایمان کی توفیق نصیب ہوتا کہ ان کو جہنم کے ہول سے دو چار نہ ہونا پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انہی باایمان بندوں کی تسلی کے لیے یہ بشارت دی کہ اگرچہ یہ ضابطہ تو بالکل اٹل ہے کہ کسی شخص کو نجات ایمان و عمل کے بدوں حاصل نہیں ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں پر یہ فضل ضرور فرمائے گا کہ اگر ان کی اولاد نے ان کی پیروی کی تو ایمان کے اعتبار سے اس کا درجہ فروتر ہو لیکن اللہ تعالیٰ اولاد کو ان کے ساتھ جمع کر دے گا اور اس یکجائی کے لیے ان کے درجے کو نیچا نہیں کرے گا بلکہ اولاد کے درجے کو اونچا کر دے گا۔ (اولاد کی اصلاح کے لیے فکر مند رہنے کی تعلیم)۔۔ یہ اس بات کی تعلیم ہے کہ ہر شخص اپنی اولاد اور اپنے متعلقین کو ایمان کی راہ دکھانے کی کوشش، جس حد تک اس کے امکان میں ہو، ضرور کرے۔ ایمان کے بغیر کسی شخص کو بھی نجات حاصل نہیں ہوگی اگرچہ وہ کسی نبی اور رسول کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی کی اولاد نے اگر ایمان کی راہ اختیار کرلی تو گو اس کا ایمان ادنیٰ درجے کا ہی ہو لیکن اس کو اپنے رفیع المنزلت بزرگوں کی معیت جنت میں ضرور حاصل ہوجائے گی۔
Top