Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے، ہر آدمی اس کے عوض جو اس نے کمایا گروی رکھا ہوا ہے۔
(1) والذین امنوا واثبعتھم ذریتھم بایمان :”بایمان“ پر تنوین تنکیر و تقلیل کیلئے ہے، اس لئے ترجمہ ”اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی“ کیا گیا ہے۔ (2) الحقنا بھم ذریتم : طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے اس کی تفسیر نقل فرمائی ہے :(ان اللہ تبارک و تعالیٰ یرفع للمومن ذریتہ ، وان کانوا دونہ فی العمل ، لیقر اللہ بھم عینہ) (طبری : 32622)”اللہ تعالیٰ مومن کی خاطر اس کی اولاد کو اونچا لے جائے گا، خواہ وہ عمل میں اس سے کم ہوں گے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اس کی آنکھ ٹھنڈی کرے۔“ اس سے پہلے سورة رعد (23) میں بیان فرمایا کہ اہل جنت کے آباء اور بیوی بچوں میں سے جو بھی صالح ہوں گے وہ ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے اور سورة مومن (8) میں فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ سے ایمان والوں کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اور ان کے آباء ، بیویوں اور اولادوں کو جنت میں داخل کر دے۔ زیر تفسیر آیت میں جنت کے داخلے کے ساتھ ایک اور بڑی خوش خبری دی ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجے کا ایمان لا کر اپنے صالح آباء کے نقش قدم پر چلتی رہی ہو تو خواہ وہ ایمان یا عمل کے لحاظ سے اس بلند درجے کے مستحق نہ بھی ہوئے جو ان کے آباء کو حاصل ہوگا، پھر بھی اللہ تعالیٰ انہیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دے گا۔ (3) وما التھم من عملھم من شیء :”التیالت التا“ (ض) ”الشیئ“ کسی چیز کا کم ہوا۔”الت الرجل حقہ“ ”کسی آدمی کے حق میں کمی کرنا، پورا نہ دینا۔“ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ ہم آباء کو ان کے اعلیٰ درجے سے نیچے لا کر ان کی اولاد کے ساتھ ملا دیں، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے عمل کا اجر کم کردیا جائے۔ اس لئے ہم ان کے عمل میں کسی طرح کمی نہیں کریں گے ، بلکہ محض اپنے فضل سے اولاد کا درجہ بڑھا کر آباء کے اعلیٰ درجے میں پہنچا دیں گے۔ (4) جس طرح آباء کے عمل کی برکت سے اولاد کے درجات میں اضافہ ہوگا اسی طرح اولاد کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ آباء پر بھی فضل فرمائے گا۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان اللہ عزو جل لیرفع الدرجۃ للعبد الصالح فی الجنہ فیقول یا رب ! انی لی ھذہ ؟ فیقول باستغفار ولدلک لک) (مسند احمد : 2/509 ح : 10610، مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے صحیح قرار دیا ہے۔”اللہ عزو جل جنت میں صالح بندے کا درجہ بنلد فرمائے گا تو وہ کہے گا :”اے میرے رب ! مجھے یہ درجہ کیسے مل گیا ؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :”تیری اولاد کے تیرے لئے استغفار کی وجہ سے۔“ اس کی تائید اس مشہور حدیث سے ہوتی ہے جو ابوہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کی، آپ ﷺ نے فرمایا :(اذا مات الانسان انفطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ الا من صدقۃ جاریۃ او علم ینفع بہ او ولد صالح یدعولہ) (مسلم، الوصیۃ باب ما بلحق الانسان من التواب بعد وفاتہ : 1631)”جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین اعمال کے ، صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے یا صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔ (5) کل امری بما کسب رھین :”رھن برھن رہنا“ (ف) گروی رکھنا۔”رھین“ گروی رکھا ہوا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی وصولی کے لئے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن (گروی) رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کرے اس کی گروی رکھی ہوئی چیز چھوڑی نہیں جاتی اور اگر ادا کری ہی نہ سکے تو ضبط کرلی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا فضل بیان فرمایا کہ صالح اولاد کے اعمال ان کے آباء کے درجے کے لائق نہ بھی ہوئے تو انہیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اب اپنے عدل کا بیان فرمایا کہ کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، بلکہ ہر آدمی اپنے کمائے ہوئے عمل کے بدلے ہی گرفتار ہوگا، خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔ پھر یا تو آدمی وہ عمل پیش کر کے چھوٹ جائے گا جس کی ادائیگی اس کے ذمے تھی یا پیش نہ کرسکنے کی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (164) ، فاطر (18) اور سورة مدثر (38)۔
Top