Tafseer-e-Majidi - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی شامل کردیں گے اور ہم ان کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہ ہونے دیں گے،6۔ ہر شخص اپنے اعمال میں محبوس رہے گا،7۔
6۔ یعنی اس کی صورت یہ نہ ہوگی کہ متقی اسلاف کے اعمال میں سے کچھ کم کرکے انہیں اور ان کی پست عمل اولاد کو ایک درجہ میں رکھ دیا جائے۔ (آیت) ” ذریتھم “۔ ذریت۔ کے لفظ میں گنجائش ہے۔ علاوہ سلبی اولاد کے دوسرے اعزہ و اقرباء احباب، ومسترشدین بھی مراد ہوسکتے ہیں، اور حدیث میں تو ذریت کا عطف ہی لفظ دلدپر ہے، جس سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ ذریت سے یہاں مراد مطلق توابع ہیں۔ (آیت) ” واتبعتھم ذریتھم بایمان “۔ مراد ایسی ذریت ہے جو صاحب ایمان تو اپنے اسلاف ہی کی طرح ہو، البتہ اعمال میں اتباع شریعت میں ان سے بہت پیچھے ہو۔ (آیت) ” بایمان “۔ اس ایمان کی قید سے فقہاء مفسرین نے یہ نکالا ہے کہ یہاں ذکر بالغ اولاد کا ہے جو اپنے ارادہ سے ایمان لائے، اس لئے کہ بچے تو بہرحال اپنے والدین کے حکم میں رکھے ہی جائیں گے۔ یعنی اولادھم الصغار والکبار فالکبار بایمانھم انفسھم والصغار بایمان اباءھم فان الولد الصغیر یحکم باسلامہ تبعا لاحد لابوین (معالم) (آیت) ” بایمان “۔ صیغہ نکرہ تنوین کے ساتھ یا تو تکریم ایمان کے لیے ہے، اور یا اس اظہار کے لیے کہ درجہ آباء سے مقبولین تک پہنچا دینے کے لئے نفس ایمان میں اتباع کافی ہے۔ وتنکیرہ للتعظیم اوالاشعار بانہ یکفی للالحاق المتابعۃ فی اصل الایمان (بیضاوی) (آیت) ” الحقنابھم ذریتھم “۔ یہ ان اسلاف مقبولین کے اکرام اور ازدیاد لطف و سرور کے لیے ہوگا کہ ان کی ذریات کو بھی باوجود ان کے درجہ عمل کی پستی کے ان کے ساتھ ملحق اور ہم مرتبہ کردیا جائے گا۔ (آیت) ” من عملھم “۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ آیت میں بجائے من اجرھم کے من عملھم کے لانے میں نکتہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا عمل تو جوں کا توں رہے گا اور اس پر بہت زیادہ اجر ملتا رہے گا۔ من اجرھم کے لانے سے یہ زیادتی اجر والی بات نہ پیدا ہوتی۔ دلیل علی بقاء عملھم کما کان والاجر علی العمل مع الزیادۃ فیکون فیہ الاشارۃ الی بقاء العمل الذی لہ الاجر الکبیر الزائد یمکنہ العظیم العائد الیہ (کبیر) بعض فقہاء نے آیت سے نکالا ہے کہ نو مسلم سے وہ مسلمان افضل ہے جس کے باب دادا بھی مومن ہوں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے شرافت نسب کا آخرت میں مفید ہونا نکلتا ہے۔ لیکن شرافت دینی کا، نہ کہ عرفی دنیوی شرافت کا۔ آیت میں بہت بڑی بشارت اہل ایمان کے لیے ہے۔ اپنا ایمان اگر صحیح و سلامت ہے تو انشاء اللہ رحمت الہی ہر کلمہ گو کے مدارج بلند کرکے اسے اس کے بلند پایہ اسلاف مقبولین کے درجہ تک پہنچا ہی دے گی۔ 7۔ یہاں مراد کافر شخص ہے۔ یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اجر وثواب میں تو فضل خداوندی کسی کو اس کے عزیزوں اور بزرگوں کی ہم سطح کردے گا۔ لیکن عذاب و گرفت میں یہ ہرگز نہ ہوگا۔ قال مقاتل کل امری کافر بما عمل من الشرک مرتھن فی النار (معالم) لما اخبر من مقام الفضل وھو رفع الدرجۃ الذریۃ الی منزلۃ الاباء من غیر عمل یقتضی ذلک اخبر عن مقام العدل وھو انہ لایؤاخذ احد بذنب احد (ابن کثیر) قال الواحدی ھذا عود الی ذکر اھل النار فانھم مرتھنون فی النار اما ال مومن فلایکون مرتھنا قال تعالیٰ کل نفس بما کسبت رھینءۃ الااصحاب الیمین وھو قول مجاھد (کبیر) کفر کے ساتھ نجات ہی کی کوئی صورت نہیں۔ چہ جائیکہ درجات کی بلندی۔ اوپر کی بشارت جو کچھ بھی ہے صاحب ایمان ذریت کے لیے ہے نہ کہ کافر اولاد کے لیے۔
Top