Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hashr : 15
كَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۚ
كَمَثَلِ : حال جیسا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے قبل قَرِيْبًا : قریبی زمانہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھ لیا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ۚ : اپنے کام کا وبال وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے کاموں کی سزا کا مزا چکھ چکے ہیں اور (ابھی) ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب تیار ہے
15۔ 24۔ مجاہد 1 ؎ کے قول کے حوالہ سے تفسیر سدی اور تفسیر مقاتل بن حیان میں اس آیت کی تفسر یوں کی ہے کہ پہلے وبال میں پھنسنے والوں سے مراد وہ کفار قریش ہیں جو بدر کی لڑائی میں مارے گئے مگر امام المفسرین 2 ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس اس تفسیر کے مخالف ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ پہلے وبال میں پھنسنے والوں سے مراد یہود کا قبیلہ بنی قینقاع ہے جن کی جلا وطنی بنی نضیر کی جلا وطنی سے پہلے ہوئی جس کا قصہ حدیث کی کتابوں میں تفصیل سے ہے۔ حاصل اس قصہ کا اسی قدر ہے کہ یہ قبیلہ وہی ہے جس میں کے عبد اللہ بن سلام ہیں۔ اس قبیلہ سے اور آنحضرت ﷺ سے صلح کا معاہدہ تھا پھر ان کی عہد شکنی کے سبب سے بدر کی لڑائی کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان پر چڑھائی کی اور جب یہ لوگ مغلوب ہوگئے تو عبد اللہ بن ابی کی سفارش پر ان کی جان بخشی کی جا کر ان کو جلا وطن کرایا گیا۔ غرض جلا وطن ہونے والوں کی مشابہت اور تمثیل جلا وطن ہونے والوں سے ایک پوری مشابہت اور تمثیل ہے اس واسطے حافظ عماد الدین ابوالفداء 3 ؎ ابن کثیر نے عبد اللہ بن عباس کی تفسیر کو قوی ٹھہرایا ہے اور اوپر گزر چکا ہے کہ مدینہ کے منافقوں نے پہلے تو بنی ( نضیر کو بہکایا کہ ہم بھی تمہارا ساتھ دیں گے اور جب وقت پڑا تو بنی نضیر کا کچھ ساتھ نہ دیا یہی حال شیطان کا ہے کہ اب تو لوگوں کے دل میں طرح طرح کا وسوسہ ڈال کر ان سے گناہ کراتا ہے جب قیامت کے دن عذاب کا وقت آئے گا تو گناہ گار لوگوں کو خود ہی ملامت کرنے کو مستعد ہوجائے گا جس کا ذکر سورة ابراہیم میں گزر چکا۔ پھر فرمایا بہکانے والے اور بہکنے والے دونوں کا انجام دوزخ ہے۔ غرض منافقوں نے شیطان کی طرح بنی نضیر کو بہکایا تھا۔ اس مناسبت کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں منافقوں کے حال کو شیطان کے حال کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ یہاں مفسروں نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا قصہ جو لکھا ہے 4 ؎ کہ شیطان نے ستر برس کی عبادت کے بعد اس عابد سے زنا بھی کرایا اور شرک بھی آیا۔ اس قصہ سے یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قصہ آیت کی تفسیر ہے یا شان نزول ہے کیونکہ شیطان تو رات دن یہی کرتا رہتا ہے جو اس نے اس عابد کے ساتھ کیا اور ہزاروں قصہ شیطان کے اس طرح کے مشہور ہیں جس طرح وہ عابد کا قصہ ہے ‘ بلکہ مفسروں کی غرض اس قصہ کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ شیطان رات دن اس طرح فریب کے کام کرتا رہتا ہے ‘ جس طرح فریب اس نے اس عابد کو دیا ہر شخص کو اس کے فریب سے بچنا چاہئے۔ اس واسطے شیطان کے فریب کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ شیطان کے فریب میں آ کر دنیا کی زیست پر عاقبت کو نہ بھولنا چاہئے اور قیامت کو دور نہ گننا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے نیک و بد سب کاموں کی خبر ہے اور اس نیک و بد کی جزا اور سزا کا ایک دن آنے والا ہے اس دن وہی شخص اچھا رہے گا جس نے دنیا میں اس دن کی آفت سے بچنے کا کچھ سامان کرلیا۔ کل جو آنے والا دن ہے اس کو غد کہتے ہیں۔ تمام دنیا کو ایک دن فرض کیا جائے تو اس کے بعد دوسرا دن یہی پچاس ہزار برس کا دن قیامت کا ہوگا۔ اسی واسطے قیامت کو غد کہتے ہیں ولتنظر نفس ما قدمت لغد کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایماندار کو چاہئے کہ اپنے نیک عملوں پر کبھی کبھی نظر ڈال لیا کرے کہ قیامت کے لئے اس نے کیا سامان آگے بھیجا کیونکہ قیامت کے دن جنت کے درجے نیک عملوں کے موافق تقسیم ہوں گے۔ اس لئے اس دن ہر ایک کو نیک عملوں کی بڑی قدر ہوگی چناچہ معتبر 1 ؎ سند سے مسند امام احمد میں محمد بن ابی عمرہ صحابی کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا میں جو شخص تمام عمر نیک عملوں میں مصروف رہے اس کو بھی قیامت کے دن یہ پچھتاوا رہے گا کہ اس نے اور زیادہ نیک عمل کیوں نہیں کئے۔ اس مضمون کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں نیک عملوں کی ترغیب کے بعد ایمان دار لوگوں کو ان لوگوں کی حالت سے ڈرایا ہے جو دنیا کے مخمصے میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کو بالکل بھول گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو ایسا بھلکڑ کردیا ہے کہ کبھی ان کو یہ یاد نہیں آتا کہ وہ کس کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ معتبر سند سے مسند 2 ؎ امام احمد صحیح ابن حبان مستدرک حاکم میں ابودرداء کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگوں کے دل سے دنیا کی حرص کم ہوجانے کے لئے ہر روز دو فرشتے آسمان و زمین کے بیچ میں کھڑے ہو کر پکار کر یہ کہا کرتے ہیں کہ جس خوشحالی سے انسان خدا کو بھول جائے اس خوشحالی سے تنگ دستی بہتر ہے یہ حدیث آیت کے ٹکڑے فانساھم انفسھم کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ایسی خوش حالی ہے جس سے وہ خدا کو بھول گئے ہیں تو وہ خوشحالی اس آیت کے موافق اللہ کی خفگی کے سبب سے ہے اسی واسطے فرشتوں کی اس آواز کا اثر ایسے لوگوں کے دل پر کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ کثرت گناہوں سے ان کے دل پر زنگ چھا جاتا ہے۔ وہ زنگ کسی نصیحت کے اثر کو ان کے دل تک نہیں پہنچنے دیتا۔ چناچہ ابوہریرہ ؓ 1 ؎ کی صحیح حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہوں کے تودہ کے سبب سے آدمی کے دل پر زنگ آجاتا ہے اس گناہ گاری کے سب سے ان لوگوں کو بےحکم فرمایا ہے اب بےحکم لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور فرمانبردار لوگوں کا ٹھکانا جنت ہے۔ اس لئے فرمایا اہل دوزخ اور اہل جنت دونوں برابر نہیں ہیں اہل دوزخ کو طرح طرح کی کلفت ہے اور اہل جنت کو طرح طرح کی راحت ہے۔ آگے مثال کے طور پر فرمایا کہ ان بےحکم لوگوں کے دل پر زنگ ان کر ان کے دل گویا پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے ہیں ورنہ اس قرآن میں تو وہ نصیحتیں ہیں جو پتھر کو بھی موم کردیں۔ صحیح 2 ؎ مسلم میں جابر بن سمرہ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اس پتھر کا ذکر کیا ہے جو اس وقت جب آپ نبی بھی نہیں ہوئے تھے آپ سے سلام علیک کیا کرتا تھا یہ تو پتھر کا حال ہوا اور باوجود انسان ہونے کے قریش کا حال تو معلوم ہے کہ وہ معجزے دیکھ کر بھی آپ کی نبوت میں طرح طرح کے شبہات نکالتے تھے غرض پتھر میں انسان سے زیادہ سمجھ کا پیدا کردینا اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں اب آگے فرمایا کہ قرآن میں یہ مثالیں اس لئے بیان کی جاتی ہیں کہ شاید یہ بےحکم لوگ کچھ مثالوں سے ہی سمجھنے کی بات کو کچھ سمجھ جائیں تو ان کی عقبیٰ پاک ہوجائے مکہ کے قحط کے بعد مشرکین مکہ کے دل میں توحید کا مسئلہ کسی قدر جم تو گیا تھا مگر مشرک مکہ سے دفع نہیں ہوتا تھا اس لئے توحید کے مسئلہ میں گویا یہ فرمایا کہ یہ تو ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کے بت ان کی مصیبت کے وقت کچھ کام نہ آئے اور جب تک اللہ کے رسول نے رفع قحط کی دعا نہیں کی مکہ کا قحط رفع نہیں ہوا۔ اسی واسطے ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان بتوں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ عبادت کے قابل وہی معبود حقیقی ہے جو اپنے بندوں کا ظاہر و باطن کا حال جانتا ہے اور اپنے اس علم غیب کے موافق دلی زبانی ہر طرح کی التجا ہر ایک کی معلوم کرکے اپنی رحمت سے اس التجا کو پورا کرتا ہے صحیح 3 ؎ بخاری کی عبد اللہ بن مسعود کی روایت سے مکہ کے قحط کا قصہ جو سورة دخان میں گزر چکا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب قریش کی سرکشی سے آنحضرت ﷺ کو بہت تکلیف پہنچنے لگی تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے قریش کے حق میں یہ بددعا کی کہ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں اہل مصر سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اسی طرح کے قحط کی بلا اہل مکہ پر بھی نازل فرمائی جائے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی دعا قبول کی اور مکہ میں سخت قحط پڑا اور جب اہل مکہ اپنی زیست سے تنگ آگئے تو آخر آنحضرت ﷺ کی دعا سے ہی وہ قحط رفع ہوا اس قحط کے زمانہ میں اہل مکہ نے ہرچند اپنے بتوں سے مینہ برسانے کی التجا کی مگر بغیر اللہ کے حکم کے کیا ہوسکتا تھا۔ اس قصہ نے اہل مکہ کو بت پرستی سے کسی قدر بدگمان ٹھہرا دیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مکی قصہ کے بعد ان مدنی آیتوں میں توحید کے ذکر کے بعد کوئی تفصیلی دلیل بیان نہیں فرمائی۔ الملک کے معنی بادشاہ۔ وہ ایسا بادشاہ ہے جس کے حکم کو آسمان و زمین میں کوئی ٹال نہیں سکتا۔ القدوس کے معنی ہر عیب سے پاک السلام کے معنی ہر طرح کے نقصان سے سالم۔ المومن کے معنی امن کا پیدا کرنے والا المھیمن کے معنی ہر بھید سے واقف۔ العزیز کے معنی زبردست ‘ الجبار کے معنی صاحب جبروت و عظمت۔ المتکبر کے معنی بےپرواہ۔ آگے فرمایا جب یہ خصلتیں کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتیں تو مخلوق میں سے کسی کو اس کی عبادت میں شریک بھی نہیں کا جاسکتا۔ الخالق کے معنی پیدا کرنے سے پہلے ہر چیز کا اندازہ ٹھہرانے والا۔ الباری کے معنی اس اندازہ کے موافق ہر چیز کا پیدا کرنے والا ‘ المصور کے معنی کالا گورا جس کو جس صورت میں چاہے بنانے والا ‘ اسماء الحسنیٰ کے معنی اچھے معنی والے نام ‘ صحیح بخاری 2 ؎ و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ترمذی 3 ؎ و ابن ماجہ نے اپنی روایت میں ان ناموں کو ذکر بھی کیا ہے یہی مشہور نام ہیں جو چھپے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ ترمذی کی روایت ولید بن مسلم کی ہے اور ابن ماجہ کی روایت موسیٰ بن عقبہ کی اور ان دونوں روایتوں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حاکم نے ولید بن مسلم کی روایت کو صحیح کہا ہے سورة بنی اسرائیل اور سورة حدید میں گزر چکا ہے کہ پہاڑ ‘ پیڑ ان سب بےجان چیزوں کی ایک طرح کی خاص تسبیح ہے جو انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔ ہاں بغیر مطلب کے اکثر سلف نے اپنے کانوں سے اس تسبیح کی آواز سنی ہے چناچہ صحیح بخاری 3 ؎ میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جو کھانا ہم لوگ کھایا کرتے تھے اس کی تسبیح کی آواز ہمارے کانوں میں آیا کرتی تھی اس باب میں اور بھی حدیثیں ہیں۔ العزیز الحکیم کے یہ معنی ہیں کہ زبردست وہ ایسا ہے جس کا حکم آسمان و زمین میں کوئی نہیں ٹال سکتا۔ صاحب حکمت وہ ایسا ہے جس نے ہر چیز مناسب حالت میں پیدا کی۔ مسند 4 ؎ امام احمد اور ترمذی میں معقل بن یسار سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص تین دفعہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم پڑھ کر ھو الذی لا الہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ سے آخر سورة تک تین دفعہ صبح شام پڑھے گا تو اس شبانہ روز میں اگر وہ شخص مرجائے گا تو اس کو شہادت کا درجہ ملے گا۔ اور ستر ہزار فرشتے اس شبانہ روز میں اس شخص کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کی سند کے راویوں کو منفرد بتایا ہے لیکن وہ راوی ثقہ اور صدوق کے مابین میں ہیں اس لئے ان کا منفرد ہونا کچھ مضر نہیں۔ اس سورة کے شان نزول کا جو قصہ صحیحین 1 ؎ کی حضرت علی ؓ کی روایت میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے بعد ایک مشرک عورت جس کا نام سارہ تھا مکہ سے مدینہ آگئی آنحضرت ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا مسلمان ہو کر ہجرت کرکے آئی ہے اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر کیوں آئی ہے اس نے کہا مانگنے کھانے آئی ہوں عرب میں گانے والی اور نوحہ کرنے والی عورتیں ہوا کرتی تھیں یہ عورت اس قوم کی تھی کچھ دنوں یہ عورت مدینہ میں رہی جن دنوں میں یہ عورت پھر مکہ کو واپس جانے لگی ان دنوں مدینہ میں مکہ پر چڑھائی کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اسی اطلاع کے لئے ایک خط حاطب بن ابی بلقہ نے اہل مکہ کے نام لکھ کر اس عورت کو دے دیا حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے اس ماجرے کی خبر آنحضرت ﷺ کو کردی اتنے میں یہ عورت کچھ دور نکل گئی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ اور چند صحابہ کو گھوڑوں پر سوار کرکے اس عورت کے پیچھے بھیجا اور ان صحابہ نے راستہ میں اس عورت کو جا پکڑا اور اس سے اس خط کا حال پوچھا پہلے تو اس عورت نے قسمیں کھا کر اس خط کا انکار کیا لیکن جب علی ؓ نے ننگی تلوار کرکے اس کو قتل کرنے کا ڈراوا دیا تو اس نے اپنے سر کے بالوں کی چوٹی میں سے وہ خط نکال کردیا۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 340 ج 4۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 340 ج 4۔ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 340 ج 4۔ ) (4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 341 ج 4۔ ) (1 ؎ الترغیب و الترہیب فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ص 758 ج 4۔ ) (2 ؎ الترغیب والترہیب باب الترغیب فی الفراغ للعبادۃ الخ ص 203 ج 4۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ویل للمطففین ص 191 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب فضل نسب النبی ﷺ الخ ص 45 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الدخان ص 714 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب ان للہ مائۃ اسم الاواحدا ص 1099 ج 2 و صحیح مسلم باب فی اسماء اللہ تعالیٰ الخ ص 342 ج 2۔ ) (3 ؎ جامع ترمذی ابواب الدعوات ص 210 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ص 505 ج 1۔ ) (4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 344 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الممتحنۃ ص 726 ج 2 و صحیح سلم باب من فضائل حاطب بن بلتعۃ الخ ص 302 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الممتحنۃ ص 726 ج 2 و صحیح سلم باب من فضائل حاطب بن بلتعۃ الخ ص 302 ج 2۔ )
Top