Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے اہل ایمان ! جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔
15۔ 16۔ اس آیت میں اللہ پاک لڑائی سے بھاگنے والوں کو فرماتا ہے کہ دشمنوں سے بھاگو نہیں اور جو بھاگے گا وہ خدا کا غضب لے کر گھر کی طرف پھریگا اور اس کا ٹھکانا جہنم میں بہت ہی بری جگہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ دین کی لڑائی سے بھاگنا گناہ کبیرہ ہے مگر اس صورت میں کہ اگر کوئی اس لئے لڑائی سے پیٹھ پھیرے کہ دشمن کو دھوکہ دے کر ایک طرف سے بھاگ کر اور پھر دوسری طرف سے دشمن کو قتل کریگا یا اپنے سردار کے پاس لوگ بھاگ کر جائیں تو ان دو صورتوں میں اللہ پاک نے بھاگنے کی اجازت دی ہے اسی کو فرمایا الامتحرفا لقتال اومتحیزا الی فئۃ کہ اس ارادہ سے کوئی لڑائی سے بھاگ نکلا کہ پھر آئے گا یا اپنی دوسری فوج میں شامل ہو کر دشمن کو دھوکا دینا لڑائی میں یہ بھی ایک ہنر جنگ کے فنون میں سے ہے چناچہ صحیح بخاری مسلم اور ابوداؤد کی عبد بن مالک ؓ کی روایت میں اس کا ذکر ہے مسند امام احمد ‘ ترمذی وابن ماجہ میں ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ﷺ نے ان کو ایک لشکر کے ہمراہ کسی جنگ میں بھیجا لڑائی میں سے لوگ بھاگ نکلے یہ بھی ان کے ساتھ ہٹ آئے ابن عمر ﷺ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم لڑائی سے پھر آئے اور خدا کا غضب لے کر گھر کو پھرے گھر جانے سے پہلے حضرت کے پاس چلنا چاہئے اگر توبہ قبول ہوئی تو بہتر ہے ورنہ پھر چل دیں غرض کہ نماز صبح سے پہلے حضرت ﷺ کے پاس پہنچے حضرت ﷺ نے اپنے حجرہ سے نکل کر فرمایا تم کون لوگ ہو ابن عمر ؓ کہتے ہیں ہم نے کہا کہ ہم لوگ لڑائی سے بھاگ کر آئے ہیں بھگوڑے ہیں آپ نے فرمایا کہ نہیں میں تمہارا اور سارے مسلمانوں کا گروہ ہوں تم لوگ میرے ساتھ دوبارہ حملہ کرنے والوں میں ہو ابن عمر ؓ نے حضرت ﷺ کا ہاتھ چوم لیا ابن ابی حاتم نے اس روایت کو بیان کر کے یہ کہا کہ پھر حضرت ﷺ نے یہ آیت پڑھی اومتحیز الی فئۃ بہرحال ان دونوں صورتوں کے علاوہ لڑائی سے بھاگنا مطلق حرام ہے صحیح بخاری ومسلم ابوداؤد ونسائی میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سات چیزیں مسلمان شخص کو ہلاک کرنے والی ہیں ان سے بچو لوگوں نے پوچھا یا حضرت وہ کیا ہیں آپ نے فرمایا خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا۔ جادو کرنا۔ ایسے شخص کو قتل کرنا جس کے قتل کو اللہ پاک نے حرام کیا ہے۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال کھانا اور لڑائی کے دن بھاگنا اور مومنہ پاک دامن عورت پر بکاری کی تہمت کا لگانا۔ بعضے مفسرین کا مذہب یہ ہے کہ لڑائی سے بھاگنا صحابہ پر حرام تھا کیونکہ جہاد ان پر فرض تھا یا خالص انصار پر حرام تھا کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ ہر حال میں آپکا ساتھ دیں گے اور بعضے کہتے ہیں کہ آیت خالص اہل بدر کے واسطے اتری ہے۔ اس آیت سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے کیونکہ اب ان کا کوئی ایسا گروہ شوکت دار نہ تھا جس کے پاس یہ لوگ بھاگ کر جاتے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے جب خدا سے کمک کے لئے دعا کی تھی تو یہ کہا تھا کہ اے اللہ اگر یہ لوگ ہلاک ہوجاویں گے تو کوئی تیری عبادت کا کرنے والا دنیا میں نہیں رہے گا مگر جمہور مفسرین کا یہ قول ہے کہ آیت عام ہے اس کا حکم بھی عام ہے صحابہ یا انصار یا اہل بدر کے واسطے یہ حکم مخصوص نہیں ہے اگرچہ یہ آیت بدر کے موقعہ پر اتری ہے مگر اقامت تک جتنے جہاد ہوں گے سب کے واسطے یہ حکم باقی ہے اور ہر جنگ کرنے والے مسلمان پر دین کی لڑائی سے بھاگنا حرام ہے ابوہریرہ ؓ کی حدیث جو اوپر گذری اس سے آخری قول کی تائید ہوتی ہے ابن ؓ عمر کی روایت جو اوپر گذری اس کی سند میں ایک راوی یزیدبن ابی زیادہ ہے جس کو اکثر علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ترمذی نے اس کی روایت کو معتبر قرار دیا ہے اور صحیح مسلم میں ایسے موقعہ پر اس کی روایت لی گئی ہے جہاں اور روایتوں سے اس کی روایت کو تقویت پہنچ سکتی ہے امام بخاری نے بھی باب مفرد میں اس حدیث کو روایت کیا ہے ان سب باتوں کے سبب سے اس حدیث کو معتبر کہا جاسکتا ہے۔ ابن عمر ؓ کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ وہ اپنے سردار حضرت کے پاس مدینہ میں لڑائی کے موقعہ کو چھوڑ کر آگئے تھے اس لئے حضرت ﷺ نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ان لوگو میں شمار کیا جن کا لڑائی سے بھاگنا مستثنیٰ کے طور پر آیت میں جائز رکھا گیا ہے غرض یہ قصہ آیت کے استثناء کی ایک صورت کی تفسیر ہے جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ سردار اگرچہ لڑائی کے میں آگے آویگا کہ ابتدائے اسلام میں ایک مسلمان کو دس مخالف اسلام شخصوں سے لڑنے کا حکم تھا پھر ایک کو دوسرے لڑانے کا حکم آگیا اس حکم کے موافق ایک مسلمان مثلا تین مخالفوں کے مقابلہ سے پہلو تہی کرے تو وہ بھی گناہ میں داخل نہیں ہے اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکا ہے کہ جہاد کے حکم سے درگذر کی مکی آیتیں منسوخ نہیں ہیں اس لئے ضعف اسلام کے زمانے میں بےسرو سامانی کے سبب سے بہ سبب بےسرو سامانی کے دین کی لڑائی سے درگذر بھی گناہ میں داخل نہیں ہے زحف کے معنے لشکر کے ہیں :۔
Top