Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے ایمان والو جب بھڑو تم کافروں سے میدان جنگ میں تو مت پھیرو ان سے پیٹھ۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والوں جب تم کافروں سے (جہاد میں) دو بدو مقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا (یعنی جہاد سے مت بھاگنا) اور جو شخص ان سے اس موقع پر (یعنی مقابلہ کے وقت) پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنی ہے باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے (فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ الایة کے اندر بھی ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ آپ نے بدر کے روز ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی جس کے ریزے سب کی آنکھوں میں جاگرے اور ان کو شکست ہوئی اور فرشتوں کا امداد کے لئے آنا اوپر آچکا ہے اس پر بطور تفریع فرماتے ہیں کہ جب ایسے عجیب واقعات ہوئے جو کہ بالکل تمہارے اختیار سے خارج ہیں) سو (اس سے معلوم ہوا کہ تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں) تم نے ان (کافروں) کو قتل نہیں کیا لیکن (ہاں اس مرتبہ میں) اللہ تعالیٰ نے (بیشک) ان کو قتل کیا (یعنی موثر حقیقی اس کی قدرت ہے) اور (اسی طرح تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں) آپ نے خاک کی مٹھی ان کی طرف) نہیں پھینکی، لیکن (ہاں اس مرتبہ میں) اللہ تعالیٰ نے (واقعی) وہ پھینکی اور (باوجود اس کے کہ موثر حقیقی قدرت حق ہے پھر جو آثار قتل وغیرہ کو قدرت عبد پر مرتب فرما دیا تو اسمیں حکمت یہ ہے کہ) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے (ان کے عمل کا) خواب اجر دے (اور اجر کا ملنا حسب سنت الہیہ موقوف ہے اس پر کہ فعل ان کے عزم و اختیار سے صادر ہو) بلا شبہ اللہ تعالیٰ (ان مومنین کے اقوال کے) خوب سننے والے (اور ان کے افعال و احوال کے) خوب جاننے والے ہیں (ان اقوال استغاثہ اور افعال قتال و احوال تشویش وغیرہا میں جو ان کو محنت پیش آئی ہم کو اس کی اطلاع ہے ان کو اس پر جزا دیں گے) ایک بات تو یہ ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کافروں کی تدبیر کا کمزور کرنا تھا (اور زیادہ کمزوری اس وقت ظاہر ہوئی ہے جب اپنے برابر والے کے بلکہ اپنے سے کمزور کے ہاتھ سے مغلوب ہوجائے اور یہ بھی موقوف ہے اس پر کہ وہ آثار مؤمنین کے ہاتھ سے ظاہر ہوں ورنہ کہہ سکتے تھے کہ تدابیر تو ہماری قوی تھیں لیکن اقوی کے سامنے کہ تدبیر الہی ہے نہ چل سکیں تو اس سے آئندہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا حوصلہ پست نہ ہو کیونکہ ان کو تو ضعیف ہی سمجھتے) اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وہ فیصلہ تو تمہارے پاس آموجود ہوا (جو حق پر تھا اس کو غلبہ ہوگیا) اور اگر (اب حق زیادہ واضح ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت سے) باز آجاؤ تو یہ تھمارے لئے نہایت خوب ہے اور اگر (اب بھی باز نہ آئے بلکہ) تم پھر وہی کام کرو گے (یعنی مخالفت) تو ہم بھی پھر یہی کام کریں گے (یعنی تم کو مغلوب اور مسلمانوں کو غالب کردینا) اور (اگر تم کو اپنی جمعیت کا گھمنڈ ہو کہ اب کی بار اس سے زیادہ جمع کرلیں گے تو یاد رکھو کہ) تمہاری جمعیت تمہارے ذرا بھی کام نہ آئے گی گو کتنی زیادہ ہو اور واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (اصل میں) ایمان والوں کے ساتھ (یعنی ان کا مددگار) ہے (گو کسی عارض کی وجہ سے کسی وقت ان کے غلبہ کا ظہور نہ ہو لیکن اصل محل غلبہ کے یہی ہیں اس لئے ان سے مقابلہ کرنا اپنا نقصان کرنا ہے)۔

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں سے پہلی دو آیتوں میں اسلام کا ایک جنگی قانون بتلایا گیا ہے پہلی آیت میں لفظ زحف سے مراد دونوں لشکروں کا مقابلہ اور اختلاط ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ایسی جنگ چھڑ جانے کے بعد پشت پھیرنا اور میدان سے بھاگنا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔
دوسری آیت میں اس حکم سے ایک استثناء کا ذکر اور ناجائز طور پر بھاگنے والوں کے عذاب شدید کا بیان ہے۔
Top