Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے اہل ایمان ! جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔
آیت نمبر : 15۔ 16 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : زحفا، الزحف، الدنو قلیلا قلیلا یعنی اس کا معنی آہستہ آہستہ قریب ہونا، آگے بڑھنا، اور اس کا اصل معنی ہے الاندفاع علی الالیۃ ( سرین کے بل گھسٹ کر آگے بڑھنا) پھر جنگ میں آخر تک ہر چلنے والے کو زاحف کا نام دیا گیا ہے۔ اور التزاحف کا معنی ہے : باہم ایک دوسرے کے قریب ہونا۔ کہا جاتا ہے : زحف الی العدو زحفا ( وہ دشمن کی طرف انتہائی قریب ہوگیا) اور ازدحف القوم کا معنی ہے ان میں سے بعض بعض کی طرف چلے۔ اور اسی سے زحاف الشعر بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ دو حرفوں کے درمیان سے ایک حرف ساقط ہوجائے اور اس طرح ان میں سے ایک دوسرے کے قریب ہوجائے۔ پس رب کریم فرما رہا ہے : جب تم ایک دوسرے کے قریب ہوجاؤ اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگو تو پھر تم ان سے مت بھاگو اور نہ تم ان کی طرف اپنی پیٹھیں کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں پر اس وقت حرام قرار دیا جب ان پر جہاد اور کافروں کا قتال فرض کیا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ادبار، دبر کی جمع ہے۔ اس آیت میں لفظ دبر وضاحت کی قدرت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ بھاگنے والے پر اظہار ناپسندیدگی کے لیے اور اس کی مذمت بیان کرنے کے لیے ہے (المحرر الوجیز، سورة انفال، جلد 2، صفحہ 510، دار الکتب العلمیہ ) ۔ مسئلہ نمبر : 2 اس آیت میں اللہ تعالیٰ عزوجل نے حکم دیا ہے کہ مومنین کفار کے سامنے پیٹھ نہ پھیریں اور یہ امر اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ مومنین کے مقابلے میں دشمن کی تعداد دو مثل تک ہو، پس مومنین کا لشکر مشرکین کے ایسے لشکر کے مقابلہ میں ہو جس کی تعداد مومنین سے دوگنا تک ہو تو پھر فرض ہے کہ وہ اس کے سامنے نہ بھاگئیں۔ پس جو کوئی دو کے مقابلے میں بھاگا تو وہ لشکر سے بھاگنے والا شمار ہوگا۔ اور جو کوئی تین کے مقابلہ سے بھاگا تو وہ لشکر وے بھاگنے والا نہ ہوگا، اور وعید اس کی طرف متوجہ نہ ہوگی۔ اور فرار گناہ کبیرہ ہے، ہلاک کرنے والا ہے۔ یہ ظاہر قرآن سے اور اکثر ائمہ کے اجماع سے ثابت ہے (المحرر الوجیز، سورة انفال، جلد 2، صفحہ 510، دار الکتب العلمیہ ) ۔ ایک جماعت ان میں سے ابن ماجشون ہیں ” الواضحہ “ میں کہا ہے : بیشک ضعف، قوت اور تعداد کی رعایت کی جائے گی، پس ان کے قول کے مطابق ایک سو گھڑ سوار کا ایک سو گھڑ سوار کے مقابلے سے بھاگنا بھی جائز ہے جب کہ انہیں یہ معلوم ہو کہ مشرکین کے پاس موجود قوت و طاقت ان کی قوت و طاقت سے کئی گنا ہے، لیکن جمہور کے قول کے مطابق ایک سو کا فرار اختیار کرنا حلال نہیں ہوگا مگر تبھی جب کفار کی تعداد دو سو سے زائد ہو، پس جب ایک مسلمان کے مقابلے میں دو سے زیادہ ہوں تو پھر پسپائی اختیار کرنا جائز ہوتا ہے، لیکن ڈٹ جانا اور استقامت اختیار کرنا احسان ہے۔ موتہ کی جنگ میں تین ہزار کا لشکر دو لاکھ کے مقابلے میں کھڑا رہا، ان میں سے ایک لاک رومی تھے اور ایک لاکھ لخم اور جذام کے مستعربہ تھے۔ میں (مفسر) کہتے ہوں : فتح اندلس کی تاریخ میں یہ موجود ہے کہ طارق مولیٰ موسیٰ بن نصیر سترہ سو افراد کے ساتھ لے کر اندلس کی طرف چلا اور یہ رجب 93 ھ کا واقعہ ہے، پس اس کا اور شاہ اندلس لڈریک کے درمیان مقابلہ ہوا اس کے ستر ہزار گھڑ سوا تھے۔ پس طارق نے اس کے ساتھ جنگ لڑی اور اس کے مقابلے میں ڈٹ گیا تو اللہ تعالیٰ نے لڈریک کی متکبر فوج کو شکست سے دوچار کیا اور طارق کو فتح و سرفرازی عطا فرمائی۔ ابن وہب نے کہا ہے : میں نے حضرت امام مالک (رح) سے سنا ان سے ایسی قوم کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو دشمن کے مقابلے میں ہوتے ہیں یا وہ کسی قلعے میں محصور اور محفوظ ہوتے ہیں پھر ان کا دشمن ان پر چڑھائی کردیتا ہے اور ان کی تعداد قلیل اور تھوڑی ہے، کیا وہ جنگ لڑیں گے یا پیٹھ پھیر کر واپس جائیں گے اور اپنے ساتھیوں کو اس بارے آگاہ کریں گے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر وہ جنگ لڑیں گے یا پیٹھ پھیر کر واپس جائیں گے اور اپنے ساتھیوں کو اس بارے آگاہ کریں گے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر وہ جنگ کرنے اور لڑنے کی قوت رکھتے ہوں تو وہ ان کے ساتھ قتال کریں گے، ورنہ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ جائیں گے اور انہیں اس پر آگاہ کریں گے۔ مسئلہ نمبر 3 : لوگوں کا اس بارے اختلاف ہے کہ کہا جنگ کے دوران فرار اختیار کرنا بدر کے دن کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ حکم قیامت تک ہونے والی جنگوں کو عام ہے ؟ تو حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایب ہے کہ یہ حکم صرف یوم بدر کے ساتھ مخصوص ہے اور یہی قول نافع، حسن، قتادہ، یزید بن ابی حبیب اور ضحاک کا ہے (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 238) ۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم نے بھی کہا ہے کہ یہ حکم اہل بدر کے ساتھ کا ص ہے، پس ان کے لیے پسپائی اختیار کرنا جائز نہیں اور اگر انہوں نے پسپائی اختیار کی تو یقینا انہوں نے مشرکین کے لیے پسپائی اختیار کی اور اس وقت ان کے سوا مسلمان نہ تھے اور نہ کوئی حضور نبی مکرم ﷺ کے سوا کوئی مسلمانوں کا لشکر تھا۔ تو رہا اس کے بعد کا زمانہ تو اس میں بعض دوسرے بعض کا لشکر تھے۔ ال کیا نے کہا ہے : یہ قول محل نظر ہے، کیونکہ مدینہ طیبہ میں بہت سے انصار تھے جنہیں حضور نبی مکرم ﷺ نے خروج کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ ان کا خیال تھا کہ یہ جنگ ہوگی، بلکہ ان کا گمان تو یہ تھا کہ یہ ایک قافلہ ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ انہی لوگوں کے ہمراہ نکل پڑے جو قلیل تعداد میں آپ کے ساتھ تھے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر تمام علماء سے روایت ہے کہ اس آیت ( کا حکم) یوم قیامت تک باقی رہنے والا ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 843، سورة انفال دار الفکر) ۔ اور پہلے گروہ نے اس سے استدلال کیا ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد یومئذ سے بھی اور کہا ہے : کہ یہ اشارہ یوم بدر کی طرف ہے اور یہ کہ آیت کا حکم آیۃ الضعف سے منسوخ ہے اور لشکر سے فرار کا حکم باقی ہے لیکن وہ گناہ کبیرہ نہیں ہے۔ تحقیق لوگ غزوہ احد کے دن بھاگتے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور غزوہ حنین کے دن ان کے بارے میں فرمایا : آیت : ثم ولیتم مدبرین (التوبہ) ( پھر تم مڑے پیٹھ پھیرتے ہوئے) اور اس پر کوئی عتاب واقع نہیں ہوا۔ اور جمہورعلماء نے کہا ہے : بلاشبہ یہ اس یوم الزحف کی طرف اشارہ ہے جسے قول باری تعالیٰ : آیت : اذا لقیتم متضمن ہے اور آیت کا حکم یوم قیامت تک باقی رہنے والا ہے بشرطیکہ تعداد اتنے گناہ موجود ہو جسے اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے اور اس آیت میں نسخ نہیں ہے۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ آیت، قتال کے بعد، جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد اور جو کچھ اس دن میں ہوا اس کے ساتھ دن کے گزر جانے کے بعد نازل ہوئی۔ یہی موقف امامالک، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما اور اکثر علماء نے اختیار کیا ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے اجتناب کرو اور ان میں ایک والتولی یوم الزحف (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 64) ( میدان جہاد سے پیٹھ پھیرنا بھی ہے) اور یہ اس مسئلہ میں نص ہے۔ اور رہا احد کا دن ! تو بلاشبہ لوگ اپنے سے دو گناہ سے زیادہ لوگوں سے بھاگے اور اس کے باوجود ہلاکت اور مشقت میں پڑے۔ اور جہاں تک غزوہ حنین کا تعلق ہے تو اسی طرح اس میں بھی وہی بھاگا جسے کثرت اور زیادتی کا انکشاف ہوا، جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : 4 ابن القاسم نے کہا ہے : اس کی شہادت جائز نہیں ہوتی جو لشکر سے بھاگ آئے اور نہ ہی لشکریوں کے لیے فرار جائز ہوتا ہے اگرچہ ان کا امام (سالار) بھاگ جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ومن یولھم یومئذ دبرہ، الآیہ ( اور جو پھیرے گا ان کی طرف اس روز اپنی پیٹھ) فرمایا : اگر مقابل لشکر کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو پھر فرار جائز ہوتا ہے۔ اور یہ تب ہے جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تک نہ پہنچے اور اگر بارہ ہزار تک پہنچ جائے تو پھر ان کے لیے فرار جائز نہیں اگرچہ مشرکین کی تعداد دوگنا سے زائد ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ولن یغلب اثنا عشر الفا من قلۃ (مسند امام احمد بن حنبل، جلد 1، صفحہ 294) تعداد بارہ ہزار ہو تو اس پر قلت کے سبب ہر گز غلبہ نہیں پایا جاسکتا) اکثر اہل علم نے اس حدیث کے ساتھ آیت کے عموم میں سے اس عدد کو خاص کیا ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : اس حدیث کو ابو البشر اور ابو سلمہ العاملی جو کہ حکم بن عبداللہ بن خطاف ہیں نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث متروک ہے۔ ان دونوں نے بیان کیا ہے : زہری نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ہمیں حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” اے اکثم بن جون اپنی قوم کے سوا کے ساتھ مل کر جہاد کر وہ تیرے اخلاق کو اچھا کر دے گا اور اپنے دوستوں کے ساتھ کرم اور مہربانی کا سلوک کرو۔ اے اکثم بن جون بہترین دوست چار ہیں، ہر اول دستے کی بہترین وہ ہے جو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل ہو اور بارہ ہزار کو قلیل ہر گز قرار نہیں دیا جائے گا “ (کنز العمال، فی آداب الجہاد، جلد 4، صفحہ 359۔ 358 ) ۔ اور امام مالک (رح) سے جو روایت ہے وہ ان کے مذہب کے مطابق اس پر دلالت کرتی ہے اور وہ عمری العابد ( اس سے مراد عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز بن عمر بن خطاب ہے یہ اپنے اہل زمانہ میں بہت زیادہ زاہد اور پرہیزگار تھے) کے لیے آپ کا قول ہے کہ جب انہوں نے آپ سے پوچھا : کیا آپ کے نزدیک اس کے خلاف جہاد ترک کرنے کی گنجائش ہے جو احکام کو بدل دے، ان میں تغیر پیدا کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر تیرے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر ہو تو پھر تیرے لیے اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : 5 اگر کوئی میدان جہاد سے بھاگ جائے تو پھر اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ امام ترمذی (رح) نے بلال بن یسار بن زید سے روایت نقل کی ہے انہوں نے کہا : مجھے میرے باپ نے میرے دادا سے حدیث بیان کی ہے انہوں نے حضور نبی رحمت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : من قال استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ غفر اللہ لہ وان کان قد فر من الزحف (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، جلد 2، صفحہ 197، ایضا، سنن ابی داود، حدیث نمبر 1296، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ( جس کسی نے کہا ہے میں اس اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہون جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے سب کو زندہ رکھنے والا ہے اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں، توبہ کرتا ہوں، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اگرچہ وہ لشکر سے بھاگا ہی ہو) فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ہم اسے نہیں پہنچانتے مگر صرف اسی سند سے۔ مسئلہ نمبر : 6 قولہ تعالیٰ : آیت : الا متحر فا لقتال او متحیزا الی فئۃ، التحرف کا معنی ہے جھۃ استواء سے زائل ہوجانا، سیدھی جہت سے ایک طرف ہوجانا، پس جنگی چال کے لیے ایک جانب سے دوسری جانب ہٹ جانے والا شکست خوردہ نہیں ہوتا، اسی طرح پلٹنے والا جب مسلمانوں کی جماعت کی طرف پلٹنے کی نیت کرے تاکہ وہ ان سے مدد طلب کرے اور پھر جنگ کی طرف لوٹ آئے وہ بھی شکست خوردہ نہیں ہوتا۔ ابو داؤد نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایب بیان کی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے سرایا میں سے ایک سریہ میں تھے انہوں نے بیان کیا : پس لوگ اردگرد گھومنے لگے اور میں بھی ان اردگرد گھومنے والوں میں سے تھا ( مقصود راہ فرار کی تلاش تھی) وہ کہتے ہیں : جب ہم ظاہر ہوگئے، ہم نے کہا : ہم کیا کریں گے، حالانکہ ہم لشکر سے فرار ہیں اور ہم غضب کے ساتھ پلٹے بھی ہیں۔ تو ہم نے کہا : ہم مدینہ طیبہ میں داخل ہوں گے اور اسی میں ٹھہرے رہیں گے اور ہم چلے جائیں گے اور ہمیں کوئی بھی نہیں دیکھے گا۔ وہ فرماتے ہیں : پس ہم داخل ہوئے اور ہم نے کہا : اگر ہم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ پر پیش کردیں۔ اگر تو ہمارے لیے توبہ ہوئی تو ٹھہر جائیں گے، وگرنہ ہم واپس چلے جائیں گے ( جنگ کی طرف لوٹ جائیں گے) فرماتے ہیں : پس ہم فجر کی نماز سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو ہم آپ کے احترام کے لیے کھڑے ہوگئے اور عرض کی : ہم ( اپنے لشکر سے) فرار ہو کر آنے والے ہیں۔ پس آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : لا بل انتم العکارون ( نہیں بلکہ تم تو زبردست حملہ کرنے والے ہو) وہ فرماتے ہیں : فدنونا فقبلنا یدہ ( پس ہم قریب ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک کا بوسہ لیا) تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں مسلمانوں کا گروہ اور جماعت ہوں “ (سنن ابی داود، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 356۔ ایضا، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2276، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ ثعلب (رح) نے کہا ہے : عکارون ھم عطافون ہیں ( وہ مہربانی کرنے والے اور مائل ہونے والے ہیں) اور کسی اور نے کہا ہے : وہ آدمی جو جنگ کے وقت پیٹھ پھیر کر آجاتا ہے پر ووبارہ لوٹ جاتا ہے تو اس کے لیے عکر اور اعتکر کہا جاتا ہے۔ جریر نے منصور کے واسطے سے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : قادسیہ سے ایک آدمی شکست خوردہ ہوا اور وہ بھاگ کر مدینہ طیبہ میں حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے پاس آگیا اور عرض کی : اے امیر المومنین ! میں ہلاک ہوگیا، میں تو لشکر وے بھاگ آیا ہوں۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں تیری جماعت ہوں۔ اور محمد بن سیرین (رح) نے بیان کیا ہے : جب ابوعبیدہ کے قتل کی خبر حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر وہ میری طرف لوٹ کر آجاتا تو میں اس کے لیے ایک جماعت تھا، پس میں ہر مسلمان کی جماعت اور گروہ ہوں (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 609، سورة انفال) ۔ ان احادیث کی بنا پر فرار گناہ کبیرہ نہیں، کیونکہ یہاں فئۃ سے مراد مدینہ ہے امام وقت مسلمانوں کی جماعت ہے جہاں بھی یہ ہوں۔ اور دوسرے قول کی بنا پر یہ گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ ہو ان فئۃ سے مراد جنگ کے لیے حاضر لوگوں کی جماعت ہے۔ یہ جمہور کے قول کے مطابق ہے کہ لشکر سے بھاگنا گناہ کبیرہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ اور حضرت عمر ؓ کا یہ قول تمام مومنین کا احاطہ کرنے کے اعتبار سے ہے، کیونکہ وہ اس زمانے میں اپنے آپ کو دوچند کرنے کے لیے کئی بار ثبات اختیار کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ اور قول باری تعالیٰ : آیت : والتولی یوم الزھف میں اتنا کافی ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : 7 قولہ تعالیٰ : آیت : فقد باء بغضب من اللہ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوگا۔ باء کا اصل معنی لوٹنا ہے۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ آیت : وماوہ جھنم یعنی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور یہ ہمیشہ اس میں رہنے پر دلالت نہیں کرتا، جیسا کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ اور حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا : من قال استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم غفرلہ وان کان قد فر من الزحف۔
Top