Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا کام خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ چاہے انکو عذاب دے اور چاہے معاف کر دے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔
106۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ منافق اپنے نفاق پر اڑے رہے جہاد میں نہیں شامل ہوئے ان پر دنیا میں بھی عذاب نازل ہوا اور آخرت میں بھی ہوگا ایک وہ لوگ بھی تھے جو آرام کے واسطے لڑائی سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے قصور کا اقرار کیا اور حضرت سے عذر چاھا آپ نے قبول فرمایا اللہ نے معاف کردیا اس آیت میں جس کا ذکر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں نہیں شامل ہوئے تھے ان کو کوئی عذر نہ سوجھا جو حیلہ کرتے اس لئے حضرت ﷺ ان کے بارے میں چپ ہو رہے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ان کا کام ڈھیل میں ہے پچاس روز کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم اور حکمت کے موافق جو کچھ ٹھہرا ہے وہ ظہور میں آجاویگا اس عرصہ میں حضرت ﷺ اور سارے مسلمانوں نے ان سے بولنا چھوڑ دیا ان کی عورتیں بھی ان سے علیحدہ ہوگئیں بہت ہی پریشان اور حیران ہوئے پھر معافی کی آیت اتری لقد تاب اللہ علی النبی جو آگے آئے گی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ تین شخص ہیں جنہوں نے معافی چاہنے اور توبہ کرنے میں دیر لگائی تھی۔ مرارہ بن ربیع کعب بن مالک ہلال بن امیہ تبوک کی لڑائی میں جو لوگ نہیں گئے تھے وہ سب منافق نہیں تھے بلکہ بعضوں کی سستی تھی یا آرام کا خیال تھا جو رہ گئے تھے ان میں سے بعضوں نے جلدی توبہ کی اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھا اس لئے ان کو توبہ جلدی قبول ہوئی اور ان تین شخصوں نے توبہ کرنے میں دیر لگائی اور اپنے کو ستون سے نہیں باندھا اس لئے ان کی توبہ قبول ہونے میں دیر ہوئی۔ صحیح بخاری ومسلم میں کعب بن مالک ؓ کی حدیث 1 ؎ ہے اس میں یہ قصہ تفصیل سے ہے اس حدیث میں ان تینوں شخصوں کا نام بھی ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن جریر ج 11 ص 24 و تفسیر الدر المنثور ج 3 ص 276
Top