Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور کچھ دوسرے بھی ہیں جن کا معاملہ اللہ کے فیصلہ تک ملتوی کیا جاتا ہے۔ یا تو ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اور اللہ علیم و حکیم ہے
وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۔ الجاء کے معنی کسی معاملے کو مؤخر اور ملتوی کرنے کے ہیں۔ بعض لوگوں نے اگرچہ اپنے گناہ کا نہایت سچائی سے اعتراف کرلیا تھا لیکن ان کو اس وقت معافی نہیں ملی بلکہ ان کے معاملے کا فیصلہ آئندہ پر اٹھا رکھا گیا۔ آگے آیت 118 میں ان کا حوالہ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین آدمی تھے۔ روایات میں ان کے نام کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع مذکور ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ حضرات نفاق میں متہم نہیں تھے بلکہ اسلام کے لیے قربانیاں پیش کرنے والے لوگوں میں سے تھے، پچھلے غزوات میں بھی شریک رہ چکے تھے، لیکن تبوک کے موقع پر ان سے کمزور صادر ہوگئی اور بعض خاص وجوہ کی بنا پر، جن کی طرف ہم اشارہ کریں گے، دوسروں کے مقابل میں ان پر زیادہ سخت گرفت ہوئی، فرمایا کہ ان کا معاملہ خدا کے فیصلہ تک ملتوی کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ان کو سزا دے گا۔ چاہے گا تو ان کی توبہ قبول فرمائے گا، اللہ علیم و حکیم ہے۔ ان کے باب میں اس کے علم و حکمت کا جو تقاضا ہوگا وہ اس کے مطابق فیصلہ نافذ فرمائے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں پر جب کہ بظاہر ان کا ماضی بےداغ بھی تھا، اس قدر قدر عتاب کیوں ہوا ؟ ہمارے نزدیک اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کسی پر عتاب اس نسبت سے ہوتا ہے جس نسبت سے اس پر اعتماد اور اس سے حسن ظن ہوتا ہے۔ دوسروں نے اگر غلطی کی تو ان کی کمزوریوں کی بنا پر ان سے بعید نہیں تھی لیکن ان لوگوں نے جو غلطی کی اس سے اپنے پچھلے بےداغ ریکارڈ کو بھی انہوں نے داغدار کیا اور پیغمبر کے اس اعتماد اور حسن ظن کو بھی ٹھیس پہنچائی جو ہر مومن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان لوگوں نے غالباً اس اعتماد کی بنا پر جو انہیں اپنی سابق خدمات پر رہا ہوگا، اپنی اس غلطی کا اس شدت کے ساتھ احساس بھی نہیں کیا جس شدت کے ساتھ انہیں اس کا احساس کرنا تھا چناچہ آگے والی آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ اپنی کسی غلطی پر احساسِ ندامت کی کمی توبہ کی اصل روح کے منافی ہے اس وجہ سے حکمت تربیت مقتضی ہوئی کہ ان کی توبہ کی قبولیت اتنے عرصہ تک ملوتی رہے جب تک ان کے اندر وہ بےقراری اور دل کی وہ خستگی و شکستگی نہ پیدا ہوجائے جو توبہ کی قبولیت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں سفارشی بنتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس مرحلہ میں، جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں، منافقانہ ذہنیت پر آخری ضرب لگائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ پسند فرمایا کہ نفاق کے خلاف مسلمانوں کی حس اتنی بیدار ہوجائے کہ وہ اس کی کسی قسم کو بھی اپنے اندر گوارا کرنے پر راضی نہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے ایسے لوگوں پر گرفت سب سے زیادہ موثر ہوسکتی تھی جو اپنی اس غلطی سے پہلے معاشرے کے بےداغ لوگوں میں شمار ہوتے رہے ہوں۔ اس واقعہ نے منافقین کی آنکھیں بھی کھول دی ہوں گی کہ جب اس قسم کے لوگوں پر ایسی گرفت ہوسکتی ہے تو تابہ دیگراں چہ رسد۔ اور دوسرے مسلمانوں نے بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا کہ دین میں اصل معیار مطلوب کیا ہے جس کی کسوٹی پر کسے جانے کے لیے ہر مسلمان کو تیار رہنا چاہیے۔
Top