Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اس انتظار میں ہے کہ اللہ کا حکم کیا ہوتا ہے وہ انہیں عذاب دے یا ان پر لوٹ آئے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے
کچھ لوگوں کو معاملہ ابھی زیر غور کردیا گیا ان کی آزمائش مزید بڑھ گئی : 137: اس آیت میں وضاحت کی جارہی ہے کہ کچھ لوگ ابھی ایسے ہیں جن کو نہ تو منافق کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ابھی ان کی توبہ قبول ہوئی ہے ان کو ابھی فیصلہ الٰہی کا منتظر رہنا ہوگا کیونکہ ان کی توبہ کی قبولیت اور عدم قبولیت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور احادیث و روایات میں آیا ہے کہ یہ کل تین آدمی تھے۔ 1 : مرارہ بن ربیع ، 2 : کعب بن مالک ، 3 : بلال بن امیہ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تبوک سے واپسی پر یہ لوگ کوئی عذر پیش نہ کرسکے اس لئے کہ یقیناً ان کے پاس کوئی عذر موجود ہی نہ تھا اور اپنی طرف سے عذع بنا کر انہوں نے پیش کرنا پسند نہ کیا۔ اس سے یقیناً ان کی آزمائش کا وقت تو بڑھ گیا لیکن ان کی ثابت قدمی کے اجر کو فرشتے بھی نہ چھو سکے اور جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو وہ وقت ایسا تھا جس کے متعلق یہ مثل صادق آتی ہے کہ ” شنیدہ کے بود دیدہ۔ “ ان اللہ کے نیک بندوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کو کوئی عذر نہیں تھا محض کاہلی و سستی تھی جس نے ہم کو نکلنے نہیں دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کے حکم کا انتظار کرو وہ تم کو عذاب دے یا تم پر لوٹ آئے وہ کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔ ان اللہ کے بندوں کی توبہ کا ذکر آگے آیت 117 میں آنے والا ہے اس کی طرف مراجعت کریں۔
Top