Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا کام خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ چاہے انکو عذاب دے اور چاہے معاف کر دے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔
(9:106) مرجون۔ (رج و۔ رج ی مادہ) رجاء کنارہ۔ جیسے رجا البئر۔ کنویں کا کنارہ۔ اس کی جمع ارجاء ہے قرآن مجید میں ہے والملک علی ارجائھا۔ (69: 17) اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے۔ رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ قرآن میں ہے مالکم لا ترجون للہ وقارا (71:127) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم نے خدا کا وقار دل سے بھلا دیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا معنی لا تخافون کیا ہے یعنی تم کیوں نہیں ڈرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوف ورجاء باہم لازم و ملزوم ہیں۔ جب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی تو ساتھ ہی اس کا ہاتھ سے چلے جانے کا اندیشہ بھی ہوگا۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ وترجون من اللہ مالا یرجون (4:104) اور تم کو خدا سے وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں۔ مرجون۔ مرجی یعنی مرجو کی جمع ہے۔ اسم مفعول۔ امید وہم کے درمیان لٹکا ہوا معلق جو نتائج کے متعلق خوف ورجا کے درمیان معلق ہیں۔ کہ ان کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہ یعنی جن کا معاملہ بھی طے نہیں ہوا۔ اور اللہ کے حکم کے انتظار میں تاخیر میں پڑا ہوا ہے۔ واخرون مرجون لامر اللہ۔ کچھ اور لوگ ہیں کہ خڈا کے حکم کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے۔ یہ اشارہ ہے کعب بن مالک۔ مرارہ بن الربیع۔ ہلال بن امیہ کی طرف ۔ کسی شرعی عذر کے بغیر یہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے۔ حضور ﷺ کے حکم پر ان سے ہر ایک نے قطع تعلقی کرلی۔ آخر پچاس دن کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ (دیکھو آیات 114-115 ۔ سورة ہذا) ۔ اما۔ بطور حرف تفصیل آیا ہے۔ جیسے انا ھدینہ السبیل اما شاکرا واما کفورا۔ (76:2) ہم نے انسان کو راستہ دکھلا دیا اس کے بعد وہ شکر گزار بندہ بنے یا ناشکرا بن کر رہے۔
Top