Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 47
اَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ١ؕ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
اَوْ : یا يَاْخُذَهُمْ : انہیں پکڑ لے وہ عَلٰي : پر (بعد) تَخَوُّفٍ : ڈرانا فَاِنَّ : پس بیشک رَبَّكُمْ : تمہارا رب لَرَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت رحم کرنے والا
یا وہ انھیں خوفزدہ ہونے پر پکڑلے۔ پس بیشک تمہارا رب یقینا بہت نرمی کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ : ”تَخَــوُّفٍ“ کا ایک معنی خوف زدہ ہونا ہے اور ایک معنی ”تَنَقُّص“ یعنی آہستہ آہستہ کم ہونا ہے۔ یعنی عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں پہلے ہی سے نظر آ رہا ہو کہ عذاب آ رہا ہے، جس کے آنے سے وہ ہر وقت خوف زدہ رہیں اور اس کے نتیجے میں دن بدن ان کی جانیں، مال اور پیداوار کم ہوتی چلی جائیں، حتیٰ کہ دیکھتے دیکھتے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آجائیں۔ یہ بھی عذاب کی نہایت تکلیف دہ صورت ہے، کیونکہ انسان خوف کی وجہ سے نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے، بلکہ گھلتا چلا جاتا ہے۔ اس تفسیر میں ”تَخَــوُّفٍ“ اور ”تَنَقُّص“ (خوف زدہ ہونا اور آہستہ آہستہ کم ہونا) دونوں معنی آگئے ہیں۔ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اگرچہ عذاب کی بیشمار صورتیں ہیں، مگر وہ تمہیں مہلت دیتا ہے اور درگزر فرماتا ہے، تاکہ تم نافرمانی چھوڑ کر واپس پلٹ آؤ۔ یہ اس کی بیحد شفقت اور نہایت مہربانی ہے کہ تم گناہ کرتے رہتے ہو، اس کے باوجود وہ تمہیں رزق دیتا ہے اور تندرستی بخشتا ہے اور اس کی طرف سے تمہاری فوری گرفت نہیں ہوتی۔ ورنہ اگر وہ تمہیں تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے پکڑے تو زمین پر کوئی چلنے والی چیز باقی نہ رہے۔ دیکھیے سورة فاطر کی آخری آیت۔
Top