Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 47
اَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ١ؕ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
اَوْ : یا يَاْخُذَهُمْ : انہیں پکڑ لے وہ عَلٰي : پر (بعد) تَخَوُّفٍ : ڈرانا فَاِنَّ : پس بیشک رَبَّكُمْ : تمہارا رب لَرَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت رحم کرنے والا
یا جب ان کو عذاب کا ڈر پیدا ہوگیا ہو تو ان کو پکڑلے۔ بےشک تمہارا پروردگار بہت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے
او یاخذھم علی تخوف یا گھٹاتے گھٹاتے سب کو پکڑ لے۔ تَخَوُّفٍ کا معنی ہے : گھٹانا۔ تخوِفۃٌ میں نے اس کو کم کردیا۔ تخوفہ الدہر زمانے نے اس کو جسمانی و مالی نقصان پہنچایا۔ بغوی نے لکھا ہے : تَخَوُّفٍ کا یہ معنی قبیلۂ بنی ہذیل کے محاورہ میں آیا ہے۔ گھٹانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو آج ‘ کسی کو کل ‘ کسی کو پرسوں اللہ ہلاک کر دے اور اسی طرح سب کو ختم کر دے۔ ضحاک اور کلبی نے کہا : تَخَوُّفٍ کا معنی خوف ہی ہے۔ میں کہتا ہوں : اس صورت میں آیت کا مقصد یہ ہوگا کہ جب دوسرے ہلاک کر دئیے جائیں تو ان کی ہلاکت کو دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہوجائیں اور اسی خوف کی حالت میں ان پر بھی ہلاکت آجائے۔ یا یہ مطلب ہے کہ پہلے ہلاکت کی نشانیاں ظاہر کردی جائیں جن سے وہ لوگ خوف زدہ ہوجائیں ‘ پھر ان کو ہلاک کردیا جائے ‘ جیسے قوم ثمود کو ہلاک کیا گیا تھا۔ پہلے روز ان کے چہرے زرد پڑگئے تھے ‘ دوسرے روز سرخ اور تیسرے روز سیاہ ہوگئے۔ اس کے بعد ان کو ہلاک کردیا گیا۔ فان ربکم لرء وف رحیم پس بلاشبہ تمہارا رب بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ اسی وجہ سے وہ فوراً عذاب میں مبتلا نہیں کرتا اور فوری سزا نہ دینے کی وجہ سے لوگ بےخوف ہوگئے ہیں ‘ حالانکہ یہ بیباکی اور عذاب نہ ہونے کا یقین کسی طرح مناسب نہیں کیونکہ رحیم ہونے کے باوجود اللہ سخت منتقم بھی ہے ‘ اس کا انتقام بہت سخت ہے۔ کسی میں بھی اس کے مقابلے کی طاقت نہیں۔ اَفَامِنَ کا عطف آیت وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ الاَّ رِجَالاً پر ہے اور فاء تعقیب کیلئے ہے ‘ یعنی جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے آدمیوں کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجا تو پھر محمد ﷺ کا انکار اور آپ کے مغلوب کرنے کی تدبیریں اور ان بری تدبیروں کے برے نتیجہ سے نڈر ہوجانا بالکل نازیبا اور ناروا ہے۔ یہ رسول بھی گزشتہ رسولوں کی طرح ہیں جن کی مخالفت گزشتہ امتوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوچکی ہے۔
Top