Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 15
قَالَ كَلَّا١ۚ فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
قَالَ : فرمایا كَلَّا : ہرگز نہیں فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ : پس تم دونوں جاؤ ہماری نشانیوں کے ساتھ اِنَّا : بیشک ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّسْتَمِعُوْنَ : سننے والے
فرمایا ہرگز ایسے نہ ہوگا، سو تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ، بیشک ہم تمہارے ساتھ خوب سننے والے ہیں۔
قَالَ كَلَّا۔۔ : فرمایا، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، نہ وہ تمہیں قتل کرسکیں گے، نہ کوئی ایذا پہنچا سکیں گے۔ تمہاری ہارون کو معاون نبی بنانے کی درخواست بھی قبول ہے، اس لیے تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ : ہمت بندھانے کے لیے دو چیزیں عطا فرمائیں، پہلی عصا اور ید بیضا کے معجزے، دوسری اپنی معیت کا وعدہ۔ عام معیت تو کائنات کی ہر چیز کو حاصل ہے، یہاں معیت سے مراد معیت خاصہ ہے، جیسا کہ موسیٰ ؑ نے فرعون اور اس کی فوج کے آ پہنچنے پر فرمایا تھا : (اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ) [ الشعراء : 62 ] ”ہرگز نہیں ! بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔“ اور جیسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھی کے لیے کہا تھا : (لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) [ التوبۃ : 40 ] ”غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“ ”سَمِعَ“ ”اس نے سنا“ اور ”اِسْتَمَعَ“ اس نے کان لگا کر سنا۔“ ”لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا“ میں ضمیر ”کُمْ“ تثنیہ کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ دوسری جگہ فرمایا : (لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى) [ طٰہٰ : 46 ] ”ڈرو نہیں، بیشک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔“
Top