Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 15
قَالَ كَلَّا١ۚ فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
قَالَ : فرمایا كَلَّا : ہرگز نہیں فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ : پس تم دونوں جاؤ ہماری نشانیوں کے ساتھ اِنَّا : بیشک ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّسْتَمِعُوْنَ : سننے والے
فرمایا ہرگز نہیں تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں
تسلی باری تعالیٰ : 15: قَالَ کَلَّا فَاذْھَبَا (فرمایا ہرگز نہیں تم دونوں جائو) کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے پہنچنے والی مصیبت کا دفاع طلب کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ خوف کو ان سے ہٹا دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی کیلئے رسالت طلب کی تو جواب ملا اذھبا یعنی میں نے اس کو تیرے ساتھ ہی رسول بنادیا پس تم دونوں ادائیگی فریضہ کیلئے جائو۔ فاذھباؔ کا عطف اس فعل پر ہے جس پر کلاؔ دلالت کرتا ہے گویا اس طرح فرمایا اے موسیٰ تو اس قسم کے گمان سے باز رہو اور تم اور ہارون مل کر جائو۔ بِاٰیٰتِنَآ (ہماری آیات کے ساتھ) اور وہ ید بیضاء اور عصا وغیرہ ہیں۔ اِنَّا مَعَکُمْ (ہم معاونت و مدد سے تمہارے ساتھ ہیں) ۔ اور جن کی طرف تم بھیجے گئے ہو علم وقدرت سے وہاں بھی موجود ہیں۔ مُّسْتَمِعُوْنَ : یہ اِنَّ کی خبر ہے اور معکم ؔ لغو ہے۔ ( ہم تمہاری باتیں سننے والے ہیں) نمبر 2۔ یہ دونوں انَّ کی خبریں ہیں۔ یعنی سننے والے ہیں۔ استعمالِ استماع : اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ استماع تو صرف کان لگانے کیلئے آتا ہے کہا جاتا ہے استمع الی حدیثہٖ ای اصغیٰ الیہ۔ مگر یہاں اس پر محمول کرنا درست نہیں۔ پس یہاں اس کا معنی سماع، سننا کیا جائے گا۔
Top