Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 15
قَالَ كَلَّا١ۚ فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
قَالَ : فرمایا كَلَّا : ہرگز نہیں فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ : پس تم دونوں جاؤ ہماری نشانیوں کے ساتھ اِنَّا : بیشک ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّسْتَمِعُوْنَ : سننے والے
فرمایا، ہرگز نہیں ! پس تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ جائو، ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں
آیت 17-15 اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطمینان دہانی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے اس اندیشے کی تو پوری شدت کے ساتھ تردید فرما دی کہ قبطی انہیں قتل کردیں گے لیکن حضرت ہارون کے بارے میں ان کی درخواست، جیسا کہ دوسرے مواقع میں تصریح اور یہاں اشارہ ہے، منظور فرما لی اور ان کو حکم دیا کہ تم دونوں فرعون کے پاس جائو اور کوئی اندیشہ نہ رکھو۔ انا معکم مسمعون اطمینان دہانی کا نہایت بلیغ فقرہ ہے۔ دوسرے مقام میں یہی بات یوں ارشاد ہوئی ہے۔ اننی معکما اسمع واری (طہ :46) (میں تم دونوں کے ساتھ سنتا اور دیکھتا ہوں تو مجال ہے کہ کوئی تمہیں گزند پہنچا سکے۔) فرعون کی طرف ایک کے بجائے دو رسول انا رسول رب العلمین سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے مددگار، شریک رسالت کی حیثیت سے تھے۔ دوسرے مقام میں اس کی وضاحت ہوگئی۔ فرمایا ہے : انا رسولا ربک (طہ 47) (ہم دونوں تیری طرف تیرے رب کے رسول ہیں) فرعون کے سامنے اس امر واقعی کا اظہار تمام حجت کے پہلو سے ہوا ہے کہ ایک چھوڑ دو دو رسول، اللہ نے اس کی طرف بھیجے ہیں اگر اس کے بعد بھی اس نے صحیح روش اختیار نہ کی تو اس کی شامت ہی ہے۔ ارسل معنا بنی اسرائیل سے متعلق مولانا قربی کا نقطہ نظر ان رسل معنا بنی اسرآئیل کی وضاحت سورة طہ کی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ ہم کرچکے ہیں۔ تو رات سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ تمام بنی اسرائیل کو عید قربانی منانے کے لئے تین دن کی راہ بیابان میں لے جانا چاہتے تھے، لیکن یہ تصریح تورات میں نہیں ہے کہ بیابان میں کہاں لے جانا چاہتے تھے۔ استاذ امام ؒ کا خیال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ان کو حج و قربانی کے لئے مکہ معظمہ لے جانا چاہتے تھے۔ میں نے مولانا کا یہ خیال ایک نظریے کی حیثیت سے پیش کردیا ہے، ان کے دلائل میرے سامنے نہیں ہیں اس وجہ سے میں پوری طرح اس پر مطمئن نہیں ہوں۔ میں اپنا رجحان اعراف کی تفسیر میں ظاہر کرچکا ہوں۔ بعض باتیں مولانا کے اس خیال کی تائید کرتی ہیں۔ ممکن ہے آگے کسی موزوں مقام پر ہیں ان کی وضاحت کروں۔ فرعون کو انذار کے ساتھ یہ حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل کی تنظیم اور ان کے اندر دین کے احیاء و تجدید کے سلسلہ میں پہلی ہدایت ہوئی۔ تورات میں اس واقعے کے ابہام کی وجہ اس امر خاص میں تورات کے بیان کے اندر جو ابہام ہے اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو حضرت موسیٰ نے اس کو فرعون پر ظاہر نہ کرنا چاہا ہو اس وجہ سے اس کو مبہم ہی رکھا ہو یا یہ ہوا کہ بہوبد نے اس کے اظہار کو اپنے مصالح کے خلاف پا کر جس طرح حضرت اسماعیل اور خانہ کعبہ کی ساری تاریخ پر پردہ ڈال دیا اسی طرح اس بات پر بھی پردہ ڈال دیا۔ ان ارسل اصل میں بان ارسل ہے۔ عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق ب حذف ہوگئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اس پیغام کے ساتھ رسول بن کر آئے ہیں۔
Top