Taiseer-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 15
قَالَ كَلَّا١ۚ فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
قَالَ : فرمایا كَلَّا : ہرگز نہیں فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ : پس تم دونوں جاؤ ہماری نشانیوں کے ساتھ اِنَّا : بیشک ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّسْتَمِعُوْنَ : سننے والے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایسا ہرگز نہیں ہوگا تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ، ہم بھی تمہارے ساتھ 11 ہیں، سب کچھ سن رہے ہیں
11 موسیٰ (علیہ السلام) کی اس التجا اور ان خطرات کے جواب میں فرمایا : کہ (1) تمہاری التجا منظور ہے، میں ہارون کو نبوت عطا کردیتا ہوں اور وہ تمہارے ساتھ رہے گا اور اس کام میں تمہارا مددگار ہوگا، (2) تمہیں جو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ دالیں۔ تو اس بات کو دل سے نکال دو ۔ وہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ اور اس کی دو وجہ ہیں۔ ایک یہ کہ تمہیں دو ایسے معجزات دے کر بھیجا رہا ہوں جو اس بات کا یقینی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ تم فی الواقعہ اللہ کے رسول ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم دونوں کے سات تیسرا میں بھی ہوں۔ میں تمہاری سب باتیں سنتا ہوں اور تمہاری پوری پوری نگہداشت بھی کروں گا۔ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے جہمیہ نے استدلال کیا کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور جن آیات میں اللہ کے مستوی علی العرش ہونے کا ذکر تھا ان آیات کی تاویل کر ڈالی۔ حالانکہ جن آیات میں اللہ کی معیت یا اس کے قریب ہونے کا ذکر ہے تو ایسی معیت یا قربت ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثالی یوں سمجھئے کہ سورج اور چاند اللہ کی بےجان اور ادنیٰ سے مخلوق ہے۔ جو مسافر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ چلنے والا جہاں تک چلے پہلے وہ ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ آسمان پر ہیں اور انسان لاکھوں اور کروڑوں میل دور ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہونے کے باوجود اپنے علم، اپنی قدرت اور مدد کے لحاظ سے ہر انسان سے بالکل نزدیک ہے اور اس کی صحیح کیفیت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
Top