Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 86
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَلَا : اور نہیں يَمْلِكُ الَّذِيْنَ : مالک ہوسکتے۔ اختیار وہ لوگ رکھتے يَدْعُوْنَ : جن کو وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهِ : اس کے سوا سے الشَّفَاعَةَ : شفاعت کے اِلَّا : مگر مَنْ شَهِدَ : جو گواہی دے بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اور وہ، وہ جانتے ہوں
اور وہ لوگ جنھیں یہ اس کے سوا پکارتے ہیں، وہ سفارش کا اختیار نہیں رکھتے مگر جس نے حق کے ساتھ شہادت دی اور وہ جانتے ہیں۔
(1) ولا یملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ …: پچھلی آیت میں ”من دون اللہ“ کے پاس آسمانوں اور زمین کی اور ان کے درمیان کی کسی بھی چیز کی ملک ہونے کی نفی تھی، اس آیت میں ان سے شفاعت کی مل کیت کی بھی نفی فرما دی۔ (2) اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، دونوں مراد ہوسکتی ہیں اور یہ قرآن کا اعجاز ہے۔ پہلی یہ کہ مشرکین جن ہستیوں کو یہ سمجھ کر پکارتے ہیں کہ وہ ان کی شفاعت کریں گی ان کے پاس شفاعت کا کوئی اختیار نہیں، مگر وہ لوگ جنہوں نے کلمہ حق یعنی ”لا الہ الا اللہ“ کی شہادت دی اور صرف زبانی نہیں بلکہ وہ اس کا یقین رکھتے تھے، مثلاً فرشتے، عیسیٰ ؑ اور اللہ کے دوسرے مقرب بندے۔ وہ چونکہ حق (توحید) کا یقین رکھ کر اس کی گواہی دیتے تھے اور انہوں نے کبھی لوگوں کو پانی عبادت کا حکم نہیں دیا، اس لئے وہ اللہ کے اذن سے سفارش کرسکیں گے۔ رہے بت اور دوسرے جھوٹے مشکل کشا اور حاجت روا، جن کی مشرکین پوجا کرتے ہیں، وہ تو اپنے آپ کو نہیں بچا سکیں گے بلکہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے، کسی کی سفارش کیا کریں گے ؟ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ”من شھد بالحق“ سے پہلے لازم جارہ محذوف ہے :”ای الا لمن شھد بالحق“ یعنی سفارش کرنے والوں کو صرف ان لوگوں کے حق میں سفارش کا اختیار دیا جائے گا جنہوں نے حق یعنی کلمہ ”لا الہ الا اللہ“ کی شہادت دی اور صرف زبانی نہیں بلکہ اس کا علم اور یقین بھی رکھتے تھے۔ رہے کفار یا منافقین، تو ان کے حق میں کوی شفاعت نہیں کرے گا۔ شفاعت کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیے آیت الکرسی، سورة مریم (87) ، سبا (23) ، نجم (26) اور سورة نبا (38)۔ (3) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہادت وہی معتبر ہے جو علم کے ساتھ دی جائے۔ دنیا میں اگرچہ ہر اس شخص کو مسلمان تصور کرلیا جاتا ہے جو زبانی کلمہ ”لا الہ الا اللہ“ کی شہادت دے، مگر قیامت کے دن اسی کی شہادت معتبر ہوگی جس نے دل کے یقین کیساتھ یہ شہادت دی ہوگی۔
Top