Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 86
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَلَا : اور نہیں يَمْلِكُ الَّذِيْنَ : مالک ہوسکتے۔ اختیار وہ لوگ رکھتے يَدْعُوْنَ : جن کو وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهِ : اس کے سوا سے الشَّفَاعَةَ : شفاعت کے اِلَّا : مگر مَنْ شَهِدَ : جو گواہی دے بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اور وہ، وہ جانتے ہوں
اور اس کے سوا جن کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں وہ تو کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے مگر جنہوں نے حق کی گواہی بھی دی ہو اور وہ علم بھی رکھتے ہوں
113 مشرکانہ عقیدئہ شفاعت کی تردید : سو اس ارشاد سے مشرکین کے مشرکانہ عقیدئہ شفاعت کی تردید فرما دی گئی۔ مشرکین کا کہنا یہ تھا اور یہ ہے کہ ہمارے یہ معبود اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ { ہٓؤُلآئِ شُفَعَائُ نَا عِنْدَ اللّٰہِ } ۔ اور جیسا کہ کلمہ گو مشرکوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تو بس فلاں سرکار کا لڑ پکڑ لیا ہے وہی ہمیں کافی ہے۔ یہ وہاں پر اڑ کے بیٹھ جائیں گے اور منوا کر چھوڑیں گے۔ اور ہمارا کام بن جائے گا۔ آخر جہاں سے اونٹ گزرے گا وہاں سے اس کی دم بھی گزر جائے گی وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ جل و علا ۔ سو اس ارشاد ربانی سے مشرکوں کے ایسے مشرکانہ عقیدئہ شفاعت کی جڑ نکال دی گئی اور انکے اس زعم کی بیخ کنی کردی گئی کہ انکے مولیٰ و مرجع انکے مزعوعہ شرکاء و شفعاء ہیں جو اپنی سفارش سے ان کی جان بخشی کرا دیں گے اور انکو عذاب سے چھڑا دیں گے۔ سو فرمایا گیا کہ جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پوجتے پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کوئی اختیار نہیں رکھتے ہوں گے بلکہ اس دن فیصلہ تمام تر اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہوگا۔ اور وہ بالکل حق کے مطابق فیصلہ فرمائے گا ۔ { وَالاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ } ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کی ہر قسم اور اس کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 114 شفاعتِ حق کا اثبات : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ کے سوا جن کو پوجتے پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا کوئی اختیار نہیں رکھیں گے مگر جن کو اللہ اجازت دے گا اور وہ حق کی گواہی دیں گے "۔ یعنی توحید کی۔ کہ یہی اصل الاصول اور اساس متین ہے دین حنیف کی تمام تعلیمات مقدسہ کی۔ یعنی شفاعت کی اجازت ان ہی کو ہوگی اور انہی کیلئے ہوگی جنہوں نے حق کی گواہی دی ہوگی علم اور بصیرت کی بنا پر۔ نہ کہ محض منافقانہ طور پر۔ اور قرآن حکیم میں دوسرے کئی مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ خداوند قدوس کے یہاں سفارش کیلئے صرف وہی لوگ زبان کھول سکیں گے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ اور وہ اسی کیلئے زبان کھولیں گے جس کیلئے انکو اجازت ملے گی۔ چناچہ سورة طٰہٓ میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { یَوْمَئِذٍ لاَّ تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ الاَّ مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہُ قَوْلاً } ۔ (طٰہ : 109) ۔ یعنی " اس دن کسی کو کسی کی شفاعت سے کوئی نفع نہیں پہنچے گا مگر جس کے لیے خدائے رحمان اجازت دے اور اس کے لیے کسی بات کے کہنے کو پسند کرے "۔ اور سورة نبا میں اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٓئِکَۃُ صَفًّا لاَّ یَتَکَلَّمُوْنَ الاَّ مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا } ۔ (النبائ : 38) ۔ یعنی " جس دن جبریل امین اور دوسرے فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور وہ کوئی بات نہیں کرسکیں گے مگر جس کو خدائے رحمن اجازت دے۔ اور وہ بات بھی ٹھیک کرے " اور وہی بات کرسکیں گے جو ان کے علم میں ہوگی اور صحیح ہوگی۔ پس مشرکانہ عقیدئہ شفاعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ 115 گواہی کے لیے علم کی شرط : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " درآنحالیکہ وہ جانتے بھی ہوں "۔ سو خدا کے مقرب بندے بھی زبان سے وہی بات نکالیں گے جس کا ان کو علم ہوگا۔ اور جو بات ان کے علم سے باہر ہوگی اس کے بارے میں وہ بھی زبان کھولنے کی جرات نہیں کریں گے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ کا قول سورة مائدہ میں گزر چکا ہے ۔ { وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم } ۔ یعنی " میں ان پر اسی وقت تک گواہ اور نگران رہا جب تک کہ میں ان کے اندر موجود تھا "۔ لہذا اس مشرکانہ عقیدئہ شفاعت کی وہاں کوئی گنجائش نہیں ہوگی جس کو اہل شرک و بدعت نے اپنے مفروضوں اور ڈھکوسلوں کی بنا پر اپنا رکھا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حضرت عیسیٰ میدان حشر میں عرض کریں گے کہ میں ان لوگوں پر اسی وقت تک گواہ اور نگران تھا جب تک کہ میں ان کے اندر موجود تھا۔ لیکن جب تو نے اے میرے مالک مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان پر نگران تھا۔ اور بلاشبہ تو ہی ہر چیز پر گواہ اور اس کا نگہبان ہے۔ (المائدہ : 117) یعنی اس کے بعد مجھے ان لوگوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ یہ کیا کرتے رہے۔ لہذا اب ان کا معاملہ تیرے ہی حوالے ہے۔ تو ان کے ساتھ جو چاہے کر۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرات انبیائے کرام کی گواہی اسی دور سے متعلق ہوگی جو ان کے سامنے گزرا ہوگا اور بس۔
Top