Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 86
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَلَا : اور نہیں يَمْلِكُ الَّذِيْنَ : مالک ہوسکتے۔ اختیار وہ لوگ رکھتے يَدْعُوْنَ : جن کو وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهِ : اس کے سوا سے الشَّفَاعَةَ : شفاعت کے اِلَّا : مگر مَنْ شَهِدَ : جو گواہی دے بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اور وہ، وہ جانتے ہوں
اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں تو سفارش (تک) کا اختیار نہیں، ہاں جن لوگوں نے حق کا اقرار کیا اور تصدیق بھی کرتے رہے (وہ البتہ سفارش کرسکیں گے) ،68۔
68۔ مسئلہ شفاعت جیسا کہ مسیحیوں اور بعض دوسری قوموں میں چلا ہوا ہے، سر تاسر باطل وبے اصل ہے، اس عقیدہ کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی ہے جو اس معنی میں خدائی طاقت رکھتی ہے اور قیامت میں سابقہ اسی سے پڑے گا۔ وہ جسے چاہے معاف کردے۔ پھر یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ پر زور اور دباؤ ڈال کر فیصلہ اپنی اولاد اور اپنے متوسلین کے حق میں کرالے گا۔ اسلام نے ان سب لغویات کی تردید کی، اس نے بار بار بتایا کہ فیصلے تو سارے کے سارے صرف حق تعالیٰ کرے گا۔ علم اس کا کامل، مصلحتوں پر پوری پوری نظر اس کی۔ پھر اسے حاجت ہی کسی کی شرکت یا اعانت کی کیا ہے۔ ، البتہ خالق کے حضور میں مخلوق دوسرے مخلوق کی صرف شفاعت کرسکتی ہے، سو شفاعت بھی مطلق نہیں۔ بلکہ ان قیدوں کے ساتھ :۔ (1) وہ شفاعت اذن الہی کے بعد ہو۔ کوئی شخص از خود شفاعت کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (2) شفاعت جس کی کی جائے وہ خود بھی صاحب ایمان ہو۔ (آیت) ” ولا یملک ..... الشفاعۃ “۔ بچالینے یا معاف کردینے یا اس احکم الحاکمین کے کسی فیصلہ سے معارضہ کرنے کی تو خیر کسی کی کیا مجال ہوتی، حق تعالیٰ کے حضور میں سعی وسفارش کے لئے لب کھولنے کا اختیار بھی ہر ایک کو نہیں۔ (آیت) ” الامن شھد بالحق “۔ شہادت بالحق یعنی کلمہ توحید کا اقرار۔ من شھد بالحق بکلمۃ التوحید (مدارک) وھو توحید اللہ (کشاف) (آیت) ” وھم یعلمون “۔ یعنی اس کا علم ویقین رکھتے ہیں کہ خدائے واحد کے بجز کوئی شفاعت کا مختار نہیں۔ (آیت) ” یعلمون “۔ ان اللہ ربھم حق ویعتقدون ذلک ھو الذی یملک الشفاعۃ (مدارک)
Top