Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 86
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَلَا : اور نہیں يَمْلِكُ الَّذِيْنَ : مالک ہوسکتے۔ اختیار وہ لوگ رکھتے يَدْعُوْنَ : جن کو وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهِ : اس کے سوا سے الشَّفَاعَةَ : شفاعت کے اِلَّا : مگر مَنْ شَهِدَ : جو گواہی دے بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اور وہ، وہ جانتے ہوں
اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ سفارش کا کچھ اختیار نہیں رکھتے ہاں جو علم و یقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں (وہ سفارش کرسکتے ہیں)
اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: محل جر میں ہے سے مراد حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیز اور ملائیکہ (علیہ السلام) ہیں، یعنی یہ شفاعت کا حق نہیں رکھتے مگر اس کے حق میں جو حق کی گواہی دے اور علم و بصیرت پر ایمان لائے یہ سعید بن جبیر اور دوسرے علماء کا قول ہے کہا : حق کی شہادت لا الہ الا اللہ ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : من محل رفع میں ہے یعنی جن کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ شفاعت کا حق نہیں رکھتے۔ مراد معبود ان باطلہ ہیں۔ قتادہ کے قول میں ہے : معبود اپنے عبادت گزاروں کے حق میں شفاعت نہیں کرسکتے مگر وہ معبود جو حق کی گواہی دیں جیسے حضرت عزیر (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ملائیکہ کیونکہ وہ حق اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں (2) جو انہوں نے گواہی دی اس کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت اس لئے نازل ہوئی کہ نضر بن حارث اور قریش کی ایک جماعت نے کہا : اگر (حضرت) محمد جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے تو ہم تو فرشتوں کے دوست ہوئے وہ فرشتے اس کی بجائے ہمارا حق میں شفاعت کے زیادہ حقدار ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا یعنی وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ملائیکہ، بت، جن، یا شیاطین ان کے حق میں شفاعت کریں گے قیامت کے روز کسی کے حق میں کوئی شفاعت نہیں۔ یعنی مومون کے حق میں شفاعت کریں گے جب انہیں اجازت دی جائے گی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے کیا مراد ہے یعنی وہ یہ گواہی دے ایک قول یہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کو چھوڑ کر یہ عبادت کرنے والے اس کے حقدار دار نہیں کہ کوئی ان کی شفاعت کرے مگر جو حق کی گواہی دے کیونکہ جو حق کی گواہی دے گا اس کے حق میں شفاعت کی جائے گی اور مشرک کے حق میں شفاع نہیں کی جائے گی۔ الا یہ لیکن کے معنی میں ہے مشرک شفاعت نہیں پائیں گے مگر شفاعت وہ پائے گا جو حق کی گواہی دے گا پس یہ استنثاء منقطع ہے یہ بھی جائز ہے کہ مستثنیٰ متصل ہو، کیونکہ میں ملائیکہ بھی شامل ہیں یوں کہا جاتا ہے : سورة بقرہ میں شفاعت کا معنی اور اس کا اشقاق گزر چکا ہے تو اس کے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے سے مراد ہے جس کے حق میں فرشتے گواہی دیں تاکہ وہ دنیا میں حق پر تھا جبکہ وہ اس بارے میں جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی ہے یا انہوں نے اسے ایمان کی حالت میں دیکھا تھا۔ مسئلہ نمبر 2:۔ یہ کلام دو معنوں پر دلالت کرتی ہے (1) حق کے بارے میں سفارش نفع نہیں دیتی مگر جب علم ہو اور تقلید بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی جب تک مقالہ کے صحیح ہونے کا علم نہ ہو (2) حقوق اور دوسرے امور میں تمام شہادات کے لئے یہ شرط ہے کہ شاہد اس کے بارے میں آگا ہو، اس کی مثل نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : (1) جب تو سورج کی طرح کسی امر کو دیکھے تو گواہی دے بصورت دیگر اسے چھوڑ دے۔
Top