Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 86
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَلَا : اور نہیں يَمْلِكُ الَّذِيْنَ : مالک ہوسکتے۔ اختیار وہ لوگ رکھتے يَدْعُوْنَ : جن کو وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهِ : اس کے سوا سے الشَّفَاعَةَ : شفاعت کے اِلَّا : مگر مَنْ شَهِدَ : جو گواہی دے بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اور وہ، وہ جانتے ہوں
اُس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، اِلّا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔68
سورة الزُّخْرُف 68 اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔ البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ (نہ کہ بےجا نے بوجھے) حق کی شہادت دی تھی۔ دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہوگا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کرسکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر (نہ کہ غفلت و بیخبر ی کے ساتھ) حق کی شہادت دی ہو۔ کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا، یا بےسمجھے بوجھے اشھد ان لا الٰہ الا اللہ بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں، تو وہ غلط کہتا ہے۔ یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آئے۔ لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اور یقیناً نہیں ہے، تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو، اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے۔ اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے۔ دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا، ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے۔ لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہوگا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے۔ ثانیاً ، اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے۔ گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بےمعنی ہے۔ یہی بات نبی ﷺ کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ اِذا رأیت مثل الشمس فاشہد و الّا فدع (احکام القرآن للجصّاص) " اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے دے۔ "
Top