Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ : یہ صادقین رسول اللہ ﷺ اور آپ کے مخلص صحابہ کرام ؓ ہیں۔ صدق نیت، قول اور فعل تینوں میں ہو تو صدق ہے، ورنہ فعل قول کی تکذیب کرے تو یہ بھی صدق نہیں، اس لیے جو لوگ اپنے اخلاص نیت اور قول کے مطابق عملاً تبوک کی طرف نکلے بھی وہی صادقین ٹھہرے اور ان کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا۔ ان تینوں نے بھی سچ کہا، اپنی خطا مانی اس لیے بخشے گئے، نہیں تو منافقین میں ملتے۔ (موضح) اللہ تعالیٰ نے سچے مومن قرار ہی ان لوگوں کو دیا ہے جو ایمان لانے کے بعد شک میں مبتلا نہیں ہوئے اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، فرمایا کہ صادق صرف یہی لوگ ہیں۔ دیکھیے سورة حجرات (15) اور سورة حشر (8) کعب بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مجھ پر یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ بولا، ورنہ میں بھی جھوٹ بول کر ہلاک ہوجاتا جس طرح دوسرے ہلاک ہوگئے۔ [ بخاری، المغازی، باب حدیث کعب بن مالک ؓ۔۔ : 4418] بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سچ بولنے کے انعام میں ان کی توبہ کا تذکرہ قرآن میں فرمایا جو قیامت تک پڑھا جائے گا۔ عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”سچ کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ کہتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچ جاؤ، کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی آگ کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ کہتا رہتا ہے اور جھوٹ کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔“ [ بخاری، الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ : (یأیھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔) : 6094۔ مسلم : 2607 ]
Top