Al-Qurtubi - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے اہل ایمان ! خدا سے ڈرتے رہو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔
آیت نمبر : 119۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وکونوا مع الصدقین “۔ یہ اہل صدق کے ساتھ ہونے کے بارے امر ہے اور تین کے قصے کے بعد بہت اچھا ہے جنہیں سچ نے نفع پہنچایا اور انہیں منافقوں کے مراتب سے دور ہٹا دیا گیا، مطرف نے کہا ہے : میں نے حضرت مالک بن انس ؓ کو کہتے ہوئے سنا ہے : جب کبھی کوئی آدمی سچ بولتا ہے اور وہ جھوٹ نہیں بولتا تو اس کی عقل سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور یہ بڑھاپے سے فساد عقل میں سے اس حد تک نہیں پہنچتا جہاں تک کوئی دوسرا پہنچ جاتا ہے (یعنی بڑھاپے اور فساد کے سبب اس کی عقل مختل اور ماؤف نہیں ہوتی) یہاں مومنین اور صادقین سے جو مراد ہیں ان کے بارے مختلف اقوال ہیں، پس کہا گیا ہے کہ یہ خطاب ان کو ہے جو اہل کتاب میں سے ایمان لائے اور بعض نے کہا ہے : یہ خطاب تمام مومنین کو ہے، یعنی تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت سے بچو (آیت) ” وکونوا مع الصدقین “۔ یعنی تم ان کے ساتھ ہوجاؤ جو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی معیت میں نکلے نہ کہ منافقین کے ساتھ، یعنی تم سچ بولنے والوں کے مذہب اور ان کے راستے پر ہوجاؤ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات ہیں، یعنی تم اعمال صالحہ کرکے جنت میں ان کے ساتھ ہوجاؤ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ ان سے مراد وہ ہیں جن کا ذکر اس قول میں ہے : (آیت) ” لیس البر ان تولوا وجوھکم۔۔۔۔۔ الآیہ تا قولہ۔۔۔۔۔ اولئک الذین صدقوا “۔ (البقرہ : 177) (نیکی (بس یہ) نہیں کہ (نماز میں) تم پھیر لو اپنے رخ۔۔۔۔۔ یہی لوگ ہیں جو راست باز ہیں) اور یہ قول بھی ہے کہ مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہے : (آیت) ” رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ “۔ (الاحزاب : 23) (ایسے جوانمرد ہیں جنہوں نے سچا کر دکھایا جو وعدہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا) اور یہ بھی کہا گیا ہے : مراد مہاجرین ہیں، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سقیفہ کے دن کہا تھا : بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں صادقین کا نام دیا ہے پس فرمایا : (آیت) ” للفقرآء المھجرین “۔ الآیہ (الحشر : 8) (نیز وہ مال) نادار مہاجرین کے لیے ہے) پھر اس نے تمہیں متفلحین کا نام ہے اور فرمایا ہے : (آیت) ” والذین تبوؤ الدار والایمان “۔ الآیہ (الحشر : 9) اور (اس مال میں) ان کا بھی حکم ہے جو دار ہجرت میں مقیم ہیں اور ایمان میں (ثابت قدم) ہیں) اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جن کے ظاہر اور باطن برابر ہیں، ایک جیسے ہیں، علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہ قول ہی حقیقت ہے اور یہی وہ غایت ہے جس پر انتہا ہوتی ہے، کیونکہ یہی صفت ہے جس کے ساتھ عقیدے سے نفاق اور فعل اور عمل سے مخالفت اٹھ جاتی ہے، ختم ہوجاتی ہے اور اس صفت والے کو صدیق کہا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ اور جو مراتب اور زمانے میں ان سے کم اور ادنی ہیں (1) (احکام القرآن لابن العربی، سورة توبہ، جلد 2، صفحہ 1027) اور رہے وہ جنہوں نے کہا : بیشک یہ وہ لوگ ہیں جو آیۃ البقرہ سے مراد ہیں تو وہ انتہائی اعلی اور عظیم صدق ہے اور بہت کم لوگ اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں اور یہی آیت احزاب کا معنی ہے، اور رہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی تفسیر تو وہ وہی ہے جو تمام اقوال کو شامل ہے، کیونکہ ان میں یہ تمام صفات موجود ہیں۔ مسئلہ نمبر : (2) اس کا حق ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے عقل وفہم حاصل کی کہ وہ اقوال میں سچ، اعمال میں اخلاص اور احوال میں صفا اور درستی کو لازم پکڑے، پس جو اس طرح ہوا وہ ابرار (نیکوکار لوگوں) کے ساتھ مل گیا اور غفار (بہت زیادہ مغفرت والا فرمانے) کی رضا اور خوشنودی تک پہنچ گیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم پر سچ کو اختیار کرنا لازم ہے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور بیشک نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور آدمی مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور سچ تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صدیق لکھ دیا جاتا ہے “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ جلد 2، صفحہ 326) اور جھوٹ اس کی ضد ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور فجور جہنم کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کذاب لکھ دیا جاتا ہے “۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ جلد 2، صفحہ 326) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ پس کذب (جھوٹ) عار اور شرم ہے اور جھوٹ بولنے والوں سے شہادت (گواہی) کا حق چھین لیا گیا ہے، تحقیق رسول اللہ ﷺ نے ایک جھوٹ میں آدمی کی شہادت رد کردی جو اس نے بولا تھا، معمر نے بیان کیا ہے : میں نہیں جانتا کیا اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ بولا یا رسول اللہ ﷺ کے بارے میں جھوٹ بولا یا لوگوں میں سے کسی کے بارے میں جھوٹ بولا ؟ اور شریک بن عبداللہ سے پوچھا گیا : اے ابو عبداللہ ! ایسا آدمی جس کے بارے میں نے سنا ہو کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے کیا میں اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : بیشک جھوٹ کے بارے کوئی صلح نہیں ہو سکتی نہ سنجیدگی کے ساتھ اور نہ استہزا اور تمسخر کے ساتھ، اور نہ اس کی کہ تم میں سے کوئی کسی شے کا وعدہ کرے پھر اسے پورا نہ کرے، اگر چاہو تو یہ پڑھ لو : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصدقین “۔ کیا تم کذب میں کوئی رخصت دیکھتے ہو ؟ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : لوگوں کی بات میں جھوٹ بولنے کی خبر قبول نہیں کی جائے گی اگرچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں سچ بولے، اور کسی اور نے کہا ہے : اس کی حدیث قبول کی جائے گی، اور صحیح یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے کی شہادت اور اس کی خبر قبول نہیں کی جائے گی جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے، کیونکہ قبول عظیم مرتبہ ہے اور ولایت شریفہ ہے لہذا یہ حاصل نہیں ہو سکتی مگر اس کو جس کی خصلتیں کامل ہوں اور جھوٹ سے بڑھ کر بری خصلت کوئی نہیں پس یہ ولایت سے معزول کردیتی ہے اور شہادتوں کو باطل کردیتی ہے۔ (1)
Top