Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے مسلمانو ! اللہ کے خوف [ سے بےپروار نہ ہوجاؤ اور چاہیے کہ سچوں کے ساتھی بنو (کہ یہ سچائی ہی تھی جو ان لوگوں کی بخشش کا وسیلہ ہوئی)
مسلمانوں کو سچائی کا ساتھ دینے کی تلقین الٰہی : 154: غور کرو کہ پیچھے ان تین پاک بازوں کا ذکر کیا گیا تھا جنہوں نے سچ کے ساتھ جھوٹ ملانے سے پرہیز کیا اگرچہ وہ ان کے لئے ایک آزمائش کا باعث ہوا تاہم منافقت کے داغ سے وہ بالکل صاف و پاک نکلے اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے جھوٹ بولنے کی گستاخی سے وہ بچ گئے اور اللہ نے ان کے اس عمل کو کتنی قبولیت بخشی اور اس کا ابر رحمت کس طرح ان پر برسا اور ان کے کشف ایمان کو شاداب کرگیا۔ اب زیر نظر آیت میں عام مسلمانوں کو انہی کے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت کی جارہی ہے کیونکہ حقیقی کامیابی یہی ہے کہ انسان سے خطا ہوجائے تو اعتراف جرم اور اظہار ندامت کے بعد عفو و درگزر کی التجا کرے۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی بھی اس جگہ گوش ہوش سے سن لو اور یاد رکھو۔ فرمایا : علیکم بالصدق فان الصدق یھدی الی البر وان البر یھدی الی الجنۃ چما یزال رجل یصدق ویتحری الصدق حتی یکتب عنداللہ صدیق۔ ” ہمیشہ سچ بولا کرو کہ سچ بولنا نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے اور انسان جب سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی پوری کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور سے اس کو صدیق کا لقب عطا فرما دیا جاتا ہے۔ “ ہمارے مفسرین نے اس آیت سے اجماع امت کے حجت شرعی ہونے پر دلیل پکڑی ہے اور اسی سے عارفین نے شیوخ کامل اور ائمہ مجتہدین کی اقتداء اور صحبت کا اشارہ سمجھا ہے اور اسی سے محبت صالحین کی ترغیب اخذ کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق اس کو تیتر کی زبان بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس آیت سے جو اصل سبق حاصل ہوتا ہے وہ اوپر ہم نے بیان کردیا کہ ” سانچ کو آنچ نہیں “ اور یہ کہ سچ کڑوا ضرور ہے لیکن نجات بھی اسی میں ہے۔
Top