Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے اہل ایمان ! خدا سے ڈرتے رہو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔
آیت نمبر 119 تا 122 ترجمہ : اے ایمان والو ترک معصیت کر کے اللہ سے ڈرو اور ایمان اور معاہدوں میں سچوں کے ساتھ رہو بایں صورت کہ سچ کو لازم پکڑے رہو، مدینہ والوں کے لئے اور اس کے اطراف کے دیہاتی باشندوں کے لئے ہرگز یہ مناسب نہیں تھا کہ غزوہ کے وقت رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہتے اور نہ یہ زیبا کہ اپنی جانوں کو آپ ﷺ کی جان سے عزیز سمجھیں بایں صورت کہ اپنی جانوں کو ان شدائد سے بچائیں کہ جن کو آپ ﷺ نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے، (لا یرغبون) بصورت نہی خبر ہے، یہ یعنی تخلف سے ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو جسمانی مشقت اٹھانی پڑی اور جو بھوک اللہ کی راہ میں ان کو لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے کہ جو کفار کے لئے موجب غضب ہو مَوْطِئًا مصدر بمعنی وطأً ہے اور جو کچھ ان کو دشمن کی طرف سے قتل یا قید یا لوٹ کی شکل میں پیش آیا (ان سب پر) ان کے نام نیک عمل لکھا گیا تاکہ ان (اعمال) پر ان کو جزا دی جائے، یقینا اللہ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا (اجر المحسنین، ای اجرھم) بلکہ ان کو اجر عطا کرے گا اور راہ خدا میں جو کچھ انہوں نے قلیل یا کثیر خرچ کیا اگرچہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو اور جو وادیاں ان کو طے کرنی پڑیں مگر یہ کہ اس کو (ان کے اعمال ناموں میں) لکھ دیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا اچھے سے اچھا بدلہ دے یعنی ان کی جزاء اور جب پیچھے رہ جانے والوں کو ان کے پیچھے رہ جانے پر ڈانٹ پلائی گئی اور آپ ﷺ نے سریہ روانہ فرمایا تو سب کے سب نکل پڑے تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، اور مومنین کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب غزوہ کے لئے نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے اور باقی ٹھہرے رہیں تاکہ یہ ٹھہرے رہنے والے دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب غزوہ سے وہ لوگ ان کے پاس واپس آئیں تو ان کو وہ تعلیم دے کر جو انہوں نے احکام کی حاصل کی ہے ڈرائیں تاکہ وہ اللہ کے عذاب سے اس کے امرونہی کی اتباع کر کے ڈر جائیں ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ (حکم) سرایا کے ساتھ خاص ہے، اور سابقہ آیت جو کسی کے پیچھے رہ جانے کی ممانعت کے بارے میں ہے وہ اس وقت ہے جبکہ آپ ﷺ بھی غزوہ کے لئے نکلے ہوں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : فی الایمان والعھود، اس میں اشارہ ہے کہ مع الصادقین میں معیت سے معیت فی الایمان مراد ہے نہ معیت فی المعاملات والمکان، اس لئے کہ اس معیت سے کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک کہ ایمان نہ ہو۔ قولہ : تلزموا الصدق یہ معیت کے طریقہ کا بیان ہے۔ قولہ : بان یصونوا الخ یہ حاصل معنی کا بیان ہے، بانفسھم، میں باء تعدیہ کے لئے ہے مطلب یہ ہے کہ جن شدائد و مصائب میں خود کو ڈالا ہے آپ کو جو تکالیف پیش آرہی ہیں تم اس سے خود کو بچانے کی کوشش نہ کرو۔ قولہ : وھو نھی بلفظ الخبر، یہ بطور مبالغہ کے ہے۔ قولہ : ای النھی، یہ ذلک کے مرجع کا بیان ہے اور نہی سے وہ نہی مراد ہے جو ما کان لاھل المدینة الخ سے مفہوم ہے۔ قولہ : مصدر بمعنی وطئاً یعنی مَوْطِئًا، وطأً کے معنی میں مصدر میمی ہے نہ کہ ظرف۔ قولہ : ولا ینالونَ ای لا یصیبون، پیش آنا یعنی دقت اور پریشانی کا پیش آنا۔ قولہ : نَیْلاً ، ای اصابَةً ، ای یصیبون اصابة یہ ہر تکلیف اور مصیبت کو عام ہے۔ قولہ : ای اجرھم اس اضافہ کا مقصد اسبات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ المحسنین، ضمیر، ھم، کی جگہ ان کی صفت احسان کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے، ورنہ تو اجرھم کہنا کافی ہوتا مگر اس میں دلالت علی الاحسان نہ ہوتی۔ قولہ : ذلک، اس میں اشارہ ہے کہ کتب کی ضمیر، انفاق اور قطع وادی دونوں کی طرف بتاویل مذکور لوٹ رہی ہے لہٰذا عدم مطابقت کا شبہ ختم ہوگیا۔ قولہ : لمَّا وُبّخوا علی التخلّف اس میں آئندہ آیت (ومان کان) کے سبب نزول کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : قبیلة، فرقة کی تفسیر قبیلة سے کر کے اشارہ کردیا کہ فرقہ سے بڑی جماعت مراد ہے۔ قولہ : مکث الباقُونَ ، اس میں اشارہ ہے کہ لیتفقھوا کی ضمیر محذوف کے متعلق ہے نہ کہ نَفَرَ کے لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ غزاة جہاد میں کس طرح فقہ حاصل کریں گے۔ قولہ : وَالَّتی قبلھا بالنھی عن التخلف الخ اس اضافہ کا مقصد دونوں آیتوں میں تعارض کو دفع کرنا ہے، ما کان لِاَھْل المدینة الخ میں فرمایا گیا کہ کسی شخص کو بھی غزوہ میں شرکت سے بیٹھنا جائز نہیں ہے اور وما کان المؤمنون لِیَنْفروا الخ میں سب کو نکلنے سے منع فرمایا گیا ہے دونوں آیتوں کے مفہوم میں تعارض ہے، اَلَّتی قبلھا الخ سے اسی شبہ کا جواب ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ماقبل میں جو نہی ہے وہ اس صورت میں ہے، جبکہ نفیر عام ہو اور آپ ﷺ بذات خود نکلیں اور قلیل جماعت کے نکلنے اور بڑی جماعت کے مدینہ میں رہنے کا حکم سرایا کا ہے جبکہ اعلان عام نہ ہو اور آپ بذات خود شریک نہ ہوں۔ تفسیر وتشریح ربط آیات : اس آیت کا سابقہ آیت سے ربط یہ ہے بعض لوگ مدینہ میں رہتے تھے اور بعض وہ جو مدینہ کے اطراف میں رہتے تھے جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے ان پر اظہار ناراضگی کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی اس میں فرمایا کہ ان لوگوں کو یہ بات زیبا نہیں تھی کہ اپنی جان کو آپ ﷺ کی جان سے عزیز رکھتے، اگر یہ شریک ہوتے تو ان کی بھوک پیاس ساری مشقتیں اور خدا کی راہ میں ایک ایک قدم دشمنوں کو ڈرانا دھمکانا ان کو قتل کرنا اور قتل و قید ہونا، سب نیکی میں شمار کئے جاتے گھر بیٹھ کر انہوں نے خود ہی اپنا نقصان کیا۔ خلاصہ یہ کہ یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں اور خدا کے رسول راہ خدا میں مشقتیں اور صعوبتیں اٹھائیں، فقہاء مفسرین نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ یہ معیت اور نصرت صرف عرب تک محدود یا شان رسالت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ نصرت دین مقصود ہے، اس لئے ہر مسلم پر ہر زمانہ میں واجب ہے کہ امام وقت کی اطاعت و حفاظت میں مستعد رہے آیت میں کلام اگرچہ بصیغہ خبر ہے مگر مراد نہی ہے مطلب یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ وَمَا کان المؤمنون لینفروا کافّة الخ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے مطلب یہ ہے کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہ جانے والوں کے لئے سخت وعید اور زجروتوبیخ بیان کی گئی تو صحابہ کرام بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا موقع آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے، اس آیت میں ان کو ہدایت دی جارہی ہے کہ ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ ہر شخص کی شرکت ضرور ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ ایک جماعت ہی کی شرکت کافی ہے، ان مفسرین کے نزدیک لیتفقھوا کا مخاطب پیچھے رہ جانے والا گروہ ہے یعنی ایک گروہ جہاد میں چلا جائے اور ایک گروہ مدینہ میں مقیم رہے (ومَکثَ الباقون) سے اسی کی طرف اشارہ ہے، مدینہ میں مقیم رہنے والا گروہ علم دین حاصل کرے اور جب مجاہدین واپس آجائیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کرے اور انہیں معصیت اور خلاف ورزی سے ڈرائیں۔ آیت کی دوسری تفسیر : دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ اس میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان اور اس کے طریقے کی وضاحت ہے اور وہ یہ کہ ہر بڑی جماعت اور قبیلہ میں سے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کرنے کے لئے اپنا گھر بار چھوڑیں اور مدارس و مراکز علم میں جا کر علم حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ و نصیحت کے ذریعہ دین پھیلائیں۔
Top