Anwar-ul-Bayan - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
۔ سو آپ استقامت پر رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور جو لوگ توبہ کر کے آپ کے ساتھی ہیں وہ بھی استقامت پر رہیں۔ اور حد سے آگے نہ بڑھو بیشک وہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے
حد سے آگے بڑھنے کی ممانعت : پھر فرمایا (وَلَا تَطْغَوْا) اس میں حد سے زیادہ جانے کی ممانعت فرمائی ‘ استقامت کا حکم دے کر یہ بھی بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود سے آگے بڑھو گے تو اس سے استقامت میں فرق آئے گا۔ یہ حدود سے آگے بڑھ جانا ہی تو بدعات اعتقادیہ اور بدعات اعمالیہ میں مبتلا کرتا ہے اور اس حد سے نکلنے ہی کو غلو کہا جاتا ہے اسی غلو نے تو نصاریٰ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں خدا اور خدا کا بیٹا ہونے کے اعتقاد پر آمادہ کردیا ‘ اور بہت سے مدعیان اسلام کو اس پر آمادہ کردیا کہ رسول اللہ ﷺ کی بشریت کا انکار کریں جبکہ قرآن کریم میں آپ کے بشر ہونے کی تصریح ہے۔ یہ بدعت اعتقادی کی مثال ہے اور بدعات اعمالیہ بھی لوگوں میں بہت زیادہ رائج ہیں جو انہوں نے اپنی طبیعت سے وضع کی ہیں اور انہیں دین بنا کر اور دین سمجھ کر مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔
Top