Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 31
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے یک رخ ہوکر غَيْرَ : نہ مُشْرِكِيْنَ : شریک کرنے والے بِهٖ : اس کے ساتھ وَمَنْ : اور جو يُّشْرِكْ : شریک کرے گا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَكَاَنَّمَا : تو گویا خَرَّ : وہ گرا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے فَتَخْطَفُهُ : پس اسے اچک لے جاتے ہیں الطَّيْرُ : پرندے اَوْ : یا تَهْوِيْ : پھینک دیتی ہے بِهِ : اس کو الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں مَكَانٍ : کسی جگہ سَحِيْقٍ : دور دراز
اس طرح سے کہ اللہ کی طرف جھکے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرک کرنے والے نہ ہو، اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ آسمان سے گرپڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا اسے ہوا نے اڑا کر کسی دور جگہ جا کر پٹک دیا۔
اس کے بعد مشرک کا حال بیان فرمایا (وَ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ ) (الایۃ) یعنی جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص بلندی سے گرپڑے اور پرندے اسے اچک لیں اور اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا جائیں اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جیسے کسی شخص کو ہوا اڑا کرلے جائے اور کسی دور دراز جگہ میں لے جا کر پھینک دے، علامہ بغوی نے معالم التنزیل ج 3 ؍ 286 میں لکھا ہے کہ جیسے کوئی شخص گرے اور پرندے اچک کر اور نوچ نوچ کر اس کی بوٹیاں کھا لیں یا جیسے ہوا اڑا کرلے جائے اور کسی دور جگہ لے جا کر پھینک دے یہی حال مشرک کا ہے اور وہ لامحالہ ہلاک ہی ہو کر رہے گا اس کی خلاصی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کی آخرت برباد ہے اس کے لیے عذاب دوزخ ہے الاَّ اَنْ یَّتُوْبَ مِنَ الکفر و امن قبل موتہ احقر کے ذہن میں آیت کی ایک تقریر یوں سمجھ میں آئی ہے کہ جو شخص مشرک ہوتا ہے وہ بہت سے معبودوں کو مانتا ہے اور جس کو معبود بنایا ہوا ہے ان کا اس پر تسلط ہوتا ہے جو اس نے خود ہی دے رکھا ہے اب یہ ان کے پنجہ میں ہے انہوں نے اس کی تکہ بوٹی کرلی ہے اور آپس میں بانٹ لیا ہے ایسے شخص کے بارے میں یہ امید رکھنا کہ شرک کو چھوڑ کر کبھی توحید پر آئے گا اس کا کوئی موقعہ نہیں۔ اور یہ فرمایا کہ ” مشرک کی ایسی مثال ہے جیسے کسی کو ہوا اڑا کرلے جائے اور کسی دور دراز جگہ میں لے جا کر پٹک دے “ اس کے بارے میں ذہن میں یوں آیا کہ سورة انعام میں جو (کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْھُدَی اءْتِنَا) فرمایا ہے یہ اسی کے قریب ہے، یہاں یہ فرمایا ہے کہ ہوا اڑا کرلے گئی اور کہیں دور دراز جگہ لے جا کر ڈال دیا وہاں فرمایا ہے کہ اصحاب ضلال اسے ہر طرف سے بلا رہے ہیں جس کسی کی طرف جائے گا مزید گمراہی میں پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم ہوگا والعلم عنداللہ الکریم
Top