Al-Qurtubi - Al-Hajj : 31
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے یک رخ ہوکر غَيْرَ : نہ مُشْرِكِيْنَ : شریک کرنے والے بِهٖ : اس کے ساتھ وَمَنْ : اور جو يُّشْرِكْ : شریک کرے گا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَكَاَنَّمَا : تو گویا خَرَّ : وہ گرا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے فَتَخْطَفُهُ : پس اسے اچک لے جاتے ہیں الطَّيْرُ : پرندے اَوْ : یا تَهْوِيْ : پھینک دیتی ہے بِهِ : اس کو الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں مَكَانٍ : کسی جگہ سَحِيْقٍ : دور دراز
صرف ایک خدا کے ہو کر اور اسکے ساتھ شریک نہ ٹھہرا کر اور جو شخص (کسی کو) خدا کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گرپڑے پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اڑا کر پھینک دے
مسئلہ نمبر 7 ۔ حنفآء للہ اس کا معنی ہے مستقیم، مسلمان اور حق کی طرف مائل ہونا ہے۔ حنفاء کا لفظ اضداد میں سے ہے۔ استقامت پر واقع ہوتا ہے اور میل پر بھی واقع ہوتا ہے۔ اور حنفاء پر نصب حال کی بنا پر ہے۔ بعض نے کہا : حنفئا کا معنی حجاجاً ہے یہ تخصیص ایسی ہے جس کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن یشرک باللہ فکانما خر من السمآء یہ قیامت کے دن اس کی مانند ہوگا جو اپنے لیے نہ نفع کا مالک ہوگا اور نہ اپنے سے ضررو عذاب کو دور کرسکے گا وہ اس کی مانند ہوگا جو آسمان سے گرا ہو۔ پس وہ اپنے نفس کے دفاع پر قادر نہ ہوگا۔ فتخطفہ الطیر یعنی پرندوں نے اسے اپنے پنجوں سے کاٹ دیا ہو۔ بعض عللمائء نے کہا : یہ اس کی حالت اس کی روح کے نکلنے اور فرشتوں کے اس کی روح کو آسمان کی طرف لے جانے کے وقت ہوگی۔ آسمان کا دروازہ کھولا جائے گا پھر اس کی روح کو زمین کی طرف پھینک دیا جائے گا جیسا کہ حضرت براء کی حدیث میں ہے ہم نے اپنی کتاب التذکرہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ السحیق کا معنی بعید ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسحقاً لاصحب السعیر۔ (الملک) اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فسحقاً فسحقاً (3) دور ہو جائو دور ہو جائو۔
Top