Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 31
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے یک رخ ہوکر غَيْرَ : نہ مُشْرِكِيْنَ : شریک کرنے والے بِهٖ : اس کے ساتھ وَمَنْ : اور جو يُّشْرِكْ : شریک کرے گا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَكَاَنَّمَا : تو گویا خَرَّ : وہ گرا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے فَتَخْطَفُهُ : پس اسے اچک لے جاتے ہیں الطَّيْرُ : پرندے اَوْ : یا تَهْوِيْ : پھینک دیتی ہے بِهِ : اس کو الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں مَكَانٍ : کسی جگہ سَحِيْقٍ : دور دراز
صرف ایک خدا کے ہو کر اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرا کر۔ اور جو شخص (کسی کو) خدا کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے پھر اس کو پرندے اُچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اُڑا کر پھینک دے
حنفآء للہ اللہ کے لئے دین کو خالص رکھنے والے (دین میں کسی مخلوق یہاں تک کہ اپنی نفسانیت کو دخل نہ دینے والے) ۔ حنیف کا لفظ حَنَف سے نکلا ہے حَنَف کا معنی ہے استقامت (قاموس) اور حق پر قائم رہنے اور استقامت رکھنے کا معنی ہی ہے ‘ اللہ کے لئے عبادت کو خالص کرلینا اور دوسروں کی پرستش سے منہ موڑ لینا۔ غیر مشرکین بہ ساجھی قرار دینے والے نہ ہو اس کے ساتھ۔ نہ عبادت میں نہ واجب الوجود ہونے میں نہ الوہیت میں مقصد یہ ہے کہ شرک کرنے والا نہ حنیف ہوسکتا ہے نہ ابراہیم کے دین پر۔ وَمَنْ یُّعَظِّمْ ۔۔ اگرچہ جملہ خبریہ ہے لیکن حکم امر میں ہے یعنی حرمات اللہ کی تعظیم کرو اور بت پرستی سے پرہیز رکھو ‘ بت پرستی ممنوعات میں نمبر اوّل پر ہے اور شرک آفریں بات کہنا سب سے بڑا اور سخت ترین جھوٹ ہے۔ ومن یشرک باللہ فکانما خر من السمآء فتخطفہ الطیر او تہوی بہ الریح فی مکان سحیق اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرپڑتا ہے پھر پرندے اس کی بوٹیاں نوچ لیتے ہیں یا طوفان اس کو کسی دور جگہ لے جا کر پھینک دیتا ہے۔ یعنی اللہ کی عبادت کمال رفعت ہے اس سے اعلیٰ اور بالا کوئی چیز نہیں ہے جیسے کوئی شخص آسمان پر چڑھا ہوا ہو اور سب سے اونچا دکھائی دیتا ہو اس سے اونچا بلکہ اس کے برابر کوئی اور نہ ہو لیکن جب اللہ کی عبادت کے ساتھ کسی مخلوق کی عبادت کو کوئی شریک کردیتا ہے تو وہ کمال رفعت کی چوٹی سے نیچے گرپڑتا ہے جیسے آسمان پر چڑھا ہوا آدمی پستی کے غار میں گرپڑے اس سے زیادہ پستی اور کیا ہوگی کہ آدمی اپنی ہی جیسی مخلوق کی پوجا کرنے لگے۔ ایسا آدمی تو پتھروں سے بھی زیادہ ذلیل اور پست درجہ ہے۔ پرندوں کے اچک لے جانے میں استعارہ بالکنایہ ہے پرندوں سے مراد ہیں تباہ کن خواہشات نفس جو انسان کی یکسوئی اور اطمینان خاطر کو چھین لیتی ہیں اور خیالات کو پریشان کردیتی ہیں۔ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُمیں استعارہ بالکنایہ ہے ‘ ریح (طوفان باد) سے مراد ہے شیطان۔ شیطان ہی انسان کو پرلے درجہ کی گمراہی کے مقام پر جا پھینکتا ہے۔ مَکَانٍسے مراد ہے گمراہی کا مقام اور سحیق کا معنی ہے دور یعنی حق سے دور۔ مطلب یہ ہے کہ مشرک پر نفس اور شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور شیطان انسان کو (ایمان کی) بلندی سے (گمراہی کی) پستی میں پھینک دیتا ہے۔ لفظ او منع خلو کے لئے ہے منع جمع کے لئے نہیں ہے (یعنی یہ ممکن ہے کہ ہوائی طوفان اس کو کہیں دور جا پھینکے اور پرندے بھی اچک لیں ‘ لیکن یہ ناممکن ہے کہ دونوں میں سے کچھ بھی نہ ہو) ۔ بیضاوی نے لکھا ہے اس جگہ او کا لفظ تقسیم کے لئے ہے کیونکہ مشرک دو قسم کے ہوتے ہیں (1) کبھی شرک سے نہ نکلیں شرک چھوڑنا ان کے لئے ممکن نہ ہو گویا وہ ایسے ہیں کہ جن کو پرندے اچک لیں اور چیر پھاڑ کر برابر کردیں۔ (2) کبھی مشرک توبہ کرلیتے ہیں اور شرک سے رہائی ممکن ہوتی ہے وہ ایسے ہوتے ہیں جیسے طوفان کسی کو دور پھینک دے ممکن ہے وہ نہ مرے اور صحیح سالم گھر لوٹ آئے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ تشبیہ مرکب بمرکب ہے شرک کرنے والے کی حالت اس شخص کی حالت کی طرح ظاہر کی گئی ہے جو آسمان سے گرپڑے اور کسی تدبیر سے وہ اپنے کو بچا نہ سکے اس کا ہلاک ہونا یقینی ہے خواہ اس طرح ہو کہ پرندے راستہ میں اس کو اچک لیں یا کوئی طوفان اس کو کہیں دور لے جا کر پٹک دے۔ حسن نے کہا کافروں کے اعمال کو آسمان سے گرنے والے کے حال سے تشبیہ دی ہے کفار کے اعمال بھی اکارت جائیں گے اور کوئی عمل سودمند نہ ہوگا (اور آسمان سے گرنے والے کی ہر بچاؤ کی تدبیر بھی اکارت جائے گی کسی طرح اس کو ہلاکت سے بچا نہ سکے گی) ۔ سورت اعراف کی آیت (لاَ تُفَتَّحُ لَہُمُ اَبْوَاب السَّمَآءِ ) کی تفسیر کے ذیل میں حضرت براء بن عازب کی روایت کردہ طویل حدیث کا ہم نے کچھ حصہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کافر بندہ کے مرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ملائکہ اس کی روح کو چڑھا لے جاتے ہیں جب آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں اور (دروازہ) کھلوانے کی خواہش کرتے ہیں تو کافر کی روح کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر حضور نے آیت لا تفتح لہم ابواب السمآء۔۔ تلاوت فرمائی (اور فرمایا) پھر اللہ حکم دیتا ہے کہ اس کی کتاب نچلی زمین کے اندر سجین میں لکھ لو حسب الحکم اس کی روح پھینک دی جاتی ہے اس کے بعد حضور ﷺ نے آیت (وَمَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہَ فَکَاَنَّمَا خَرَّمِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ ۔۔ ) تلاوت فرمائی۔ (بقیہ حاشیہ آیت نمبر 29) مسئلہ اگر کسی نے کہا اس سال اللہ کے لئے مجھ پر روزے ہیں (یعنی سال بھر کے روزوں کی نذر مانی) تو وقت نذر سے آئندہ بارہ مہینوں کے روزے لازم ہوگئے لیکن فتاویٰ قاضی خان اور خلاصہ میں ہے سنت یہ ہے کہ محرم سے شروع کرے اور آخری ذی الحجہ پر ختم کر دے۔ لیکن اگر اس نے سال رواں کی طرف اشارہ کیا ہے تو وقت نذر سے آخر ذوالحجہ تک روزے رکھنا لازم ہوگا اور سال رواں کے جو مہینے یا دن گزر گئے ان کے روزے لازم نہ ہوں گے۔ اسی طرح اگر کسی نے کہا میں گزرے ہوئے کل کا روزہ رکھنے کی نذر مانتا ہوں یہ کلام لغو ہے گزرا ہوا کل لوٹ کر نہیں آتا ہے۔ اگر کسی نے ماہ رواں کی طرف اشارہ کر کے اس مہینے کے روزوں کی نذر مانی تو مہینہ کے جتنے دن باقی ہوں ان کے روزے تو لازم ہوں گے اور گزرے ہوئے دنوں کی نذر لغو قرار پائے گی۔ مسئلہ اگر کسی نے کہا آج مجھ پر گزرے ہوئے کل کا روزہ رکھنالازم ہے تو گزرے ہوئے کل کی قضا لازم نہ ہوگی صرف اسی دن کا روزہ رکھے گا جس دن یہ الفاظ کہے ہوں گے۔ مسئلہ اگر ایک سال کے روزوں کی نذر مانی تو جن دنوں کے روزے شرعاً ممنوع ہیں وہ دن مستثنیٰ ہوں گے اور ممنوعہ ایام کے علاوہ روزے رکھے گا۔ اسی طرح عورت کے ایام حیض مستثنیٰ رہیں گے اور باقی ایام میں روزے رکھنے لازم ہوں گے۔ مسئلہ کسی عورت نے ایام حیض میں روزے رکھنے کی نذر مانی تو نذر صحیح نہیں اسی لئے قضاء واجب نہیں اگر کسی نے رات کا روزہ رکھنے کی نذر مانی تو یہ نذر بھی صحیح نہیں شرعی روزہ دن میں ہوتا ہے۔ ولیطوفوا بالبیت العتیق اور چاہئے کہ بیت عتیق کا طواف کریں۔ حضرت ابن عباس ‘ حضرت زبیر ‘ مجاہد اور قتادہ کے حوالہ سے بغوی نے عتیق کہنے کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ ہر جابر اور بادشاہ ظالم کے قبضہ سے اللہ نے اس گھر کو ہمیشہ آزاد رکھا ہے کوئی جبار حاکم کبھی اس پر قبضہ نہ کرسکا نہ قبضہ کرسکے گا اس لئے اس کو عتیق کہا جاتا ہے۔ لیکن اس توجیہ کی تردید حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت سے ہوتی ہے جو صحیحین میں مذکور ہے کہ ایک چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی کعبہ کو برباد کر دے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ ایک حبشی چری ہوئی رانوں والا کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھاڑ رہا ہے۔ رواہ البخاری۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک حبشی تم کو چھوڑے رکھیں تم بھی ان سے تعرض نہ کرو کیونکہ کعبہ کا خزانہ سوائے اس حبشی کے جو چھوٹی پنڈلیوں والا ہوگا اور کوئی نہ نکال سکے گا۔ رواہ ابو داؤد والحاکم و صححہ۔ بعض نے وجہ تسمیہ یہ بیان کی کہ اللہ نے کعبہ کو ڈوبنے سے آزاد رکھا طوفان نوح کے زمانے میں اس کو اٹھا لیا گیا تھا۔ ابن زید اور حسن نے عتیق کا معنی پرانا قدیم۔ بیان کیا ہے یہ سب سے اوّل تعمیر انسانی ہے دینار عتیق ‘ قدیم دینار۔ بعض نے کہا عتیق کا معنی ہے معزز عمدہ ‘ اعلیٰ ‘ عتاق الخیل اعلیٰ گھوڑے۔ عتق الرقیق۔ غلام کا غلامی کی ذلت سے آزاد ہو کر آزادی کی عزت حاصل کرنا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کوئی انسان کبھی نہ اس کا مالک ہوا نہ ہوسکتا ہے بلکہ اس کے گرداگرد سارا حرم بھی انسانی ملکیت سے آزاد ہے۔ سواء ن العاکف فیہ والباد۔ تنبیہ : بیت اللہ کا طواف عبادت مقصودہ ہے اور خلاف عقل نہیں ہے اس کی حالت نماز کی طرح ہے۔ طواف تین کا ہوتا ہے۔ (1) طواف فرض ‘ یہ حج اور عمرہ کا رکن اور جزء ضروری ہے۔ (2) طواف واجب ‘ یہ طواف قدوم و رجوع ہے۔ (پہلی زیارت کے وقت کا اور واپسی کے وقت کا طواف) ۔ (3) ان دونوں قسموں کے علاوہ ہر طواف نفل ہے ‘ جس کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اولاد عبدمناف ‘ تم میں سے جو کوئی لوگوں کے امور میں سے کسی امر کا والی ہو (یعنی حکومت کا کوئی رکن ہو یا حکومت میں اس کا دخل ہو) تو لوگوں کو رات دن میں کسی وقت بیت اللہ کا طواف کرنے سے نہ روکے۔ رواہ الشافعی وا اصحاب السنن وابن خزیمۃ وابن حبان والدارقطنی والحاکم عن جبیر بن مطعم وصححہ الترمذی۔ یہ حدیث دارقطنی نے دوسرے دو طرق سے حضرت جابر کی روایت سے بیان کی ہے مگر یہ معلول ہے دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی اس کو بیان کیا ہے ‘ ابونعیم نے تاریخ اصبہان میں اور خطیب نے تلخیص میں ایک سلسلہ سے حضرت ابن عباس ؓ تک اس حدیث کی روایت کو پہنچایا ہے مگر یہ سلسلہ بھی مجروح ہے۔ ابن عدی نے بحوالہ سعید بن راشد از عطا از ابوہریرہ ؓ اس کو بیان کیا ہے۔ مسئلہ طواف قدوم (ابتدائی طواف) امام ابوحنیفہ : (رح) ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک سنت ہے اور امام مالک کے نزدیک واجب ہے ابوالثور شافعی کا یہی قول ہے اس کو ترک کرنے سے قربانی واجب ہوجاتی ہے لیکن اگر یہ فوت ہوجائے تو باتفاق علماء حج ادا ہوجاتا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کیا۔ جس کی تفصیل حضرت عائشہ ؓ نے مجھے یہ بتائی کہ مکہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے وضو کر کے طواف کیا۔ اس کے بعد کوئی عمرہ نہ تھا۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ نے حج کیا اور سب سے پہلے کعبہ کا طواف کیا ‘ اب بھی عمرہ نہ تھا ‘ عمرہ اس کے بعد کیا ‘ پھر حضرت عثمان ؓ نے ایسا ہی کیا۔ متفق علیہ۔ حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مکہ میں) آکر سب سے اوّل جو حج یا عمرہ کا طواف کیا اس میں پہلے تین چکر لپک کر (تیزی کے ساتھ) کئے اور چار چکر معمولی چال سے پھر دو سجدے کئے پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی۔ متفق علیہ۔ امام مالک (رح) نے حضرت عروہ بن زبیر کی روایت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تنہا حج کیا تھا کیونکہ اس حدیث میں آیا ہے پھر عمرہ نہ تھا اور طواف قدوم کا وجود مذکورہ دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ دونوں حدیثوں میں ہے کہ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے طواف کیا اور یہ بھی صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ اپنے مناسک (حج کے طریقے) مجھ سے لے لو۔ (سیکھ لو) اسی حکم کی وجہ سے طواف قدوم واجب ہوگیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ باتفاق علماء طواف قدوم کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنی جائز ہے اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا بالاجماع واجب ہے اور سعی سے طواف کرنا بھی لازم ہے ‘ طواف کے بعد سعی ہونا چاہئے اس لئے طواف بھی واجب ہونا چاہئے ‘ کیونکہ کوئی واجب نفل (یا سنت) کا تابع نہیں ہوتا ‘ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے باشندوں کے طواف زیارت سے پہلے صفا ومروہ کے درمیان سعی جائز نہیں۔ کیونکہ اہل مکہ کے لئے طواف قدوم نہیں ہے اور طواف کے بعد بطور نفل سعی جائز نہیں۔ اگر شبہ کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے افراد نہیں قرآن کیا (حج اور عمرہ دونوں کی نیت ساتھ ساتھ کی تھی) بکثرت احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کو حج اور عمرہ کی لبیک کہتے ہوئے میں نے خود سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَحَجًّا۔ متفق علیہ۔ حضرت عمران بن حصین راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حج اور عمرہ یکجا کیا تھا حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ حج وادع میں رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کرنے کے بعد حج تک تمتع کیا تھا اور قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے جن کی قربانی کی تھی۔ متفق علیہ۔ اس حدیث سے اور اس جیسی دوسری روایتوں کو دیکھ کر امام احمد کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے (نہ تنہا حج کیا نہ قرآن بلکہ) تمتع کیا تھا۔ ہم کہتے ہیں اس حدیث میں تمتع سے قرآن ہی مراد ہے کیونکہ لغت کے اعتبار سے تَمَتَّعَ بالْعُمْرَۃِ الّی الْحِجَّکا معنی صرف یہ ہے کہ ایک ہی سال میں حج کے مہینہ میں عمرہ اور حج دونوں کئے جائیں خواہ ایک احرام سے کئے جائیں یا دونوں کا احرام الگ الگ باندھا جائے اور دو احرام کئے جائیں۔ آیت فَمَنْ تَمَتَّعَ بالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنُ الْہَدْیِمیں یہی مراد ہے۔ ہاں فقہاء کی اصطلاح میں تمتع الگ ہے اور قرآن الگ۔ لیکن حدیث یا قرآن کی آیت میں فقہاء کا اصطلاحی معنی مراد نہیں ہے۔ احادیث مذکورۂ بالا سے بصراحت معلوم ہو رہا ہے کہ حضور ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کے لئے ایک ہی احرام یکجائی باندھا تھا۔ البتہ اہل روایت کا اس امر میں اختلاف ہے کہ مکہ میں داخل ہونے کے بعد ایک ہی طواف کیا تھا (یعنی طواف قدوم) یا دو طواف کئے تھے۔ ایک طواف قدوم اور دوسرا طواف عمرہ۔ جمہور کا قول ہے کہ ایک ہی طواف کیا تھا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا دو طواف کئے تھے۔ جمہور کے قول کی تائید بخاری کی بیان کردہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ : مکہ میں آئے اور طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی اور (پھر) طواف کرنے کے لئے کعبہ کے قریب بھی نہیں گئے یہاں تک کہ عرفہ سے واپس گئے (پھر طواف کیا) صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر ؓ کے حج کا واقعہ مذکور ہے۔ جس سال حجاج نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پر لشکر کشی کی تھی اور حضرت ابن زبیر ؓ : کا گھیرا ڈالے پڑا تھا اسی سال حضرت ابن عمر ؓ نے حج کا ارادہ کیا گیا ‘ عرض کیا لوگ جنگ وجدال کی حالت میں ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ آپ کو حج سے روک دیں گے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (اگر مجھے روک دیا گیا تو) میں وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ واجب کرلیا ‘ پھر آپ روانہ ہوگئے جب بیداء کے باہر پہنچے تو فرمایا حج اور عمرہ کی ایک ہی حالت ہے۔ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو بھی واجب کرلیا ‘ آپ نے قدید سے خریدی ہوئی ایک قربانی بھی ساتھ لے لی اور یوم النحر سے پہلے نہ قربانی کی نہ احرام کھولا نہ سر منڈوایا نہ بال کتروائے نہ کسی ایسے کام کا ارتکاب کیا جو احرام کی حالت میں ممنوع ہے ‘ جب یوم النحر آیا تو قربانی کی اور سر منڈوایا اور خیال کیا کہ پہلے ہی طواف سے آپ کا حج بھی ادا ہوگیا اور عمر بھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے تھے جس نے حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کیا اس کے لئے ایک ہی طواف کافی ہے (جب تک دونوں کو ادا نہ کر دے احرام نہ کھولے) دونوں کو ادا کر دے تو ساتھ ساتھ احرام کھولے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ جب کعبہ کے پاس پہنچے تو سات چکر لگائے اور صفا ومروہ کے درمیان سات بار سعی کی اور (اس سے) زیادہ (کچھ) نہیں کیا اور خیال کیا کہ بس یہی کافی ہوگیا۔ حنفیہ نے حضرت علی ؓ کے عمل سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے حج وعمرہ کو یکجا ساتھ ساتھ ادا کیا اور دونوں کے لئے (جدا جدا) وہ طواف کئے اور (علیحدہ علیحدہ) دونوں کے لئے دو بار سعی کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ : کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ رواہ الدارقطنی والنسائی بطریق۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں حضرت ابوحنیفہ (رح) : کی روایت سے موقوفاً بیان کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا جب حج وعمرہ کا یکجا احرام باندھو تو دونوں کے لئے دو طواف کرو اور صفا ومروہ کے درمیان دونوں کے لئے دو بار سعی کرو۔ طحاوی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا قرآن کرنے والا (کعبہ کے) دو طواف کرے اور (صفا ومروہ کے درمیان) دو سعی کرے۔ حافظ نے کہا حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مرفوعاً اس حدیث کی روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں ہاں موقوفاً جنہیں طحاوی نے مختلف سندوں سے حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے اقوال قرار دیا ہے وہ مجموعی لحاظ سے قابل قبول ہیں ان میں کوئی ضعف نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں یہ حدیث اگر صحیح بھی ثابت ہوجائے تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں پہنچے تو منیٰ جانے سے پہلے آپ نے کعبہ کے دو طواف کئے ‘ ایک قدوم حج کا دوسرا عمرہ کا بلکہ حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کے لئے (کعبہ کا) طواف کیا اور اس کے لئے سعی کی اور یہ (عمرہ) منیٰ کو جانے سے پہلے کیا ‘ پھر قربانی کے دن حج کے لئے طواف کیا اور سعی کی۔ یہی مطلب حضرت عمران بن حصین کی روایت کردہ حدیث کا ہے کہ حضور ﷺ نے دو طواف کئے اور دو مرتبہ سعی کی۔ رواہ الدارقطنی۔ کسی قوی یا ضعیف روایت میں یہ نہیں آیا کہ طواف عمرہ کے بعد حضور ﷺ نے طواف قدوم کیا صرف مسند ابی حنیفہ میں ضبی بن معبد کی روایت سے ایسا آیا ہے ضبی نے بیان کیا میں جزیرہ سے حج قرآن کرنے کے لئے چلا۔ سلیمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کی طرف سے میرا گزر ہوا میں ملا کر کہہ رہا تھا لَبَّیْکَ بحجۃٍ وعمرۃ۔ دونوں بزرگوں نے میری لبیک کو سنا سن کر ایک صاحب نے کہا یہ (شخص اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے ‘ دوسرے نے بھی اسی طرح کی بات کہی لیکن میں (اپنے شغل میں) برابر مصروف رہا اور حج ادا کرلیا پھر امیر المؤمنین کی طرف مجھے جانا ہوا۔ راوی نے اس سے آگے کچھ تفصیل بیان کی جس کے آخر میں کہا امیر المؤمنین نے دریافت فرمایا پھر تو نے کیا کیا ‘ میں نے عرض کیا ‘ میں نے برابر (اپنی لبیک) جاری رکھی ‘ پھر عمرہ کے لئے طواف کیا اور سعی کی ‘ پھر دوبارہ ایسا ہی اپنے حج کے لئے کیا ‘ پھر میں احرام کی ہی حالت میں رہا اور وہاں ٹھہر کر وہی کیا جو حاجی کرتے ہیں یہاں تک کہ آخری نسک (رکن) بھی پورا کرلیا امیر المؤمنین عمر بن خطاب نے فرمایا تجھے رسول اللہ ﷺ : کی سنت مل گئی۔ مسند ابوحنیفہ (رح) : ناقابل اعتماد ہے اس کے مؤلف اور امام ابوحنیفہ (رح) کے درمیان بہت سے مجہول غیر معروف راوی ہیں اس کی احادیث کو صحیح بخاری کی حضرت ابن عباس ؓ کی اس روایت کے مقابلہ میں نہیں پیش کیا جاسکتا جس میں صراحت ہے کہ عرفہ سے واپسی تک پھر حضور ﷺ کعبہ کے قریب بھی نہیں گئے۔ اور جب یہ امر طے شدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کیا تھا اور سوائے طواف عمرہ کے حج کا طواف قدوم نہیں کیا تو معلوم ہوگیا کہ طواف قدوم نہ رکن حج ہے نہ مستقل طور پر واجب بلکہ صلوٰۃ تحیۃ المسجد کی طرح سنت ہے ‘ دوسرے واجب یا سنت کے ذیل میں یہ سنت پوری ہوجاتی ہے ‘ جب رسول اللہ ﷺ : مکہ میں پہنچے اور عمرہ کے لئے طواف کرلیا تو طواف قدوم کی جگہ یہ طواف کافی ہوگیا۔ مسئلہ طواف نفل ‘ نماز نفل کی طرح نذر سے واجب ہوجاتا ہے اور آیت مذکورہ بالا میں طواف سے حج کا طواف زیارت باتفاق علماء مراد ہے طواف زیارت ارکان حج میں سے ایک رکن ضروری ہے اس پر علماء کا اجماع ہے باقی کوئی طواف رکن حج نہیں ہے۔ مسئلہ طواف صدر بھی باتفاق امت رکن حج نہیں ہے امام ابوحنیفہ (رح) امام احمد (رح) اور (صاحبین) کے نزدیک واجب ہے۔ ایک روایت میں امام شافعی (رح) : کا بھی یہی قول آیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس کو واجبات حج میں سے شمار کرتے ہیں اور امام محمد مستقل واجب قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی نے طواف وداع کرلیا اور پھر کسی وجہ سے مکہ میں ٹھہرا رہا پھر کچھ مدت کے بعد واپس ہوا تو مکہ چھوڑنے کے وقت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک طواف وداع کی ضرورت نہیں لیکن امام محمد کہتے ہیں کہ دوبارہ طواف رخصت کرنا ہوگا ‘ مسافر جب مکہ سے واپس ہوگا تو اس پر طواف وداع لازم ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک طواف صدر سنت ہے ایک روایت میں امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔ طواف صدر حیض یا کسی طاقت کے رکاوٹ ڈالنے سے باجماعت امت ساقط ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ (حج کے بعد) لوگ ہر طریقہ سے واپس ہوجاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک آخری ملاقات بیت اللہ سے نہ کرلے (مکہ سے) باہر نہ نکلے۔ رواہ احمد ‘ دارقطنی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں لوگ منیٰ سے نکل کر اپنے اپنے رخ پر جاتے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ (ہر شخص کی) آخری ملاقات بیت اللہ سے ہونی چاہئے اور حضور ﷺ نے حائضہ کو (بغیر طواف صدر کئے) اجازت دے دی تھی۔ مسلم کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے تم میں سے کوئی (مکہ سے) نہ نکلے جب تک اس کی آخری ملاقات بیت اللہ سے نہ ہوجائے۔ متفق علیہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے حضور ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ آخر میں بیت اللہ کی زیارت کریں۔ مگر آپ نے حائضہ عورت کے لئے حکم میں تخفیف کردی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا جو کعبہ کا حج کرے اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے۔ حیض والی عورتیں مستثنیٰ ہیں رسول اللہ ﷺ نے ان کو رخصت دے دی۔ رواہ الترمذی وصححہ وحسنہ۔ حضرت عبداللہ بن اوس کا بیان ہے ‘ میں نے خود رسول اللہ ﷺ : کو فرماتے سنا ‘ حضور ﷺ : فرما رہے تھے جو کوئی اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس کی آخری ملاقات اس گھر سے ہونی چاہئے۔ رواہ الترمذی۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اس آخری حدیث سے طواف صدر کے واجب ہونے پر استدلال کیا اور واجباتِ حج سے قرار دیا ہے کیونکہ اس حدیث میں مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَآیا ہے۔ میں کہتا ہوں ‘ اس حدیث میں اَوِ اعْتَمَرَکا لفظ بھی آیا ہے تو طواف صدر عمرہ میں بھی واجب ہونا چاہئے لیکن اس کا کوئی قائل نہیں۔ امام احمد نے فرمایا لاینفر اَحَدٌکا لفظ عام ہے اس لئے طواف صدر کا واجب ہونا ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک پر مطلق کو مقید پر محمول کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ تقیید سبب پر وارد ہے جس طرح حدیث مبارک ہے ادا کرو ہر آزاد اور غلام کی طرف سے ‘ دوسری حدیث ہے ادا کرو ہر مسلمان آزاد اور غلام کی طرف سے (دوسری حدیث میں لفظ مسلمان مذکور ہے اور پہلی حدیث میں یہ لفظ مذکور نہیں ہے۔ لامحالہ مطلق کو ہی مقید پر محمول کیا جائے گا۔ یعنی پہلی حدیث میں بھی مسلمان آزاد و غلام مراد ہوگا) ۔ لیکن طواف صدر کی حدیث میں ایسا نہیں ہے قید سبب پر وارد ہے مکہ سے مطلق نکلنا موجب طواف ہے اور حج کے بعد مکہ سے نکلنا بھی موجب طواف ہے اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ فصل طواف کعبہ کی کچھ شرطیں ہیں۔ کچھ ارکان (یعنی فرائض) ہیں۔ کچھ واجبات ہیں ‘ کچھ سنتیں ہیں۔ کچھ آداب (یعنی مستحبات) ہیں۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔ (1) شرائط طواف۔ طواف کے لئے نیت شرط ہے ‘ ہر مستقل عبادت کے لئے نیت شرط ہے۔ شرعی نصوص سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہے اور اسی پر اجماع ہے۔ طواف زیارت کے لئے مطلق طواف کی نیت کافی ہے ‘ فرض طواف کی نیت ضروری نہیں۔ ایک سوال : وقوف عرفات کی طرح طواف زیارت بھی حج کا ایک ضروری رکن ہے اور عرفات میں ٹھہرنے کی نیت ضروری نہیں ہے اگر سوتے میں یا بےہوشی کی حالت میں عرفات میں قیام ہوجائے یا مختلف پہاڑیوں پر ٹھہراؤ ہوجائے جن میں عرفہ کی پہاڑی بھی ہو اور وقوف کرنے والے کو معلوم بھی نہ ہو کہ یہ عرفات کی پہاڑی ہے تو رکن حج ادا ہوجائے گا۔ حضرت عروہ بن مفرس نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ میں بنی طے کے پہاڑ سے آیا ہوں میں نے (کثرت سفر کی وجہ سے) اپنی اونٹنی کو گھلا دیا اور خود بھی بڑی تکلیفیں اٹھائیں کہ میں تھک گیا ‘ خدا کی قسم میں نے کوئی پہاڑی ایسی نہ چھوری جس پر قیام (وقوف) نہ کیا ہو کیا میرا حج ہوجائے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی فجر کی نماز مقام جمع میں پالی اور اس سے پہلے رات کو یا دن میں عرفات میں پہنچ گیا اس کا حج پورا ہوگیا۔ رواہ ابو داؤد۔ پھر اگر طواف زیارت کے لئے نیت شرط ہے تو بغیر تعیین فرض کے مطلق طواف کی نیت کافی ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ تعین نیت فرض تو ہر اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے شرط ہے جس کے لئے وقت ظرف ہے اور معیار نہیں ہے (یعنی ادائیگی کے بعد بھی وقت باقی رہتا ہے) جیسے نماز۔ جواب : تحقیق مقام یہ ہے کہ جب احرام کی شکل میں حج کی نیت ہوجاتی ہے تو تمام ارکان حج کی نیت ہوجاتی ہے ‘ اب اگر کوئی دوسری نیت مناسک کی نیت کے خلاف نہ ہو تو سابق کی (ابتدائی) نیت معتبر سمجھی جائے گی اور ہر رکن کی ادائیگی کے وقت اس نیت کو برقرار مانا جائے گا ہر رکن کے لئے تجدید نیت کی شرط نہ ہوگی۔ جیسے نماز کی (ابتدائی نیت کافی ہوتی ہے) ہر رکن کی ادائیگی کے لئے جدید نیت کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر کوئی رکن عبادت مستقل عبادت کی حیثیت رکھتا ہو جیسے طواف اور طواف کی دو رکعتیں تو ایسے رکن کی ادائیگی کے لئے تجدید نیت ضروری ہے اور اس رکن کو شروع کرتے وقت مطلق نیت کافی ہے۔ نماز ہو یا طواف ہر ایک کی دو حیثتیں ہیں ایک مستقل عبادت ہونے کی دوسری جزء عبادت ہونے کی اوّل حیثیت کے لحاظ سے رکن کو شروع کرتے وقت اس رکن کو ادا کرنے کی نیت لازم ہے اور دوسری صورت میں سابقہ ابتدائی نیت کافی ہے جو احرام کے وقت ہوتی ہے ہم نے دونوں حیثیتوں کو ملحوظ رکھا ہے مستقل عبادت کی حیثیت میں مستقل نئی نیت اور جزء عبادت ہونے کی صورت میں ابتدائی سابقہ نیت۔ پس شروع کے وقت مطلق نیت کافی ہے کیونکہ عبادت ہے اور عبادت کے لئے مطلق نیت کافی ہے اور طواف زیارت کی تعیینی نیت ضروری نہیں کیونکہ طواف زیارت جزء عبادت ہے۔ اور جو عمل بجائے خود عبادت نہ ہو بلکہ جز حج ہونے کی وجہ سے اس کو عبادت قرار دے لیا گیا ہو جیسے عرفہ میں قیام اور صفا و مرہ کے درمیان سعی اس کے لئے علیحدہ کسی نیت کی ضرورت نہیں ابتدائی احرام کی نیت کافی ہے۔ مسئلہ ایک شخص نے دوسرے کو اوپنے اوپر اٹھا لیا اور اسی حالت میں طواف کیا اس کی چند صورتیں ہیں جن کے احکام بھی مختلف ہیں۔ (1) حامل محرم نہ تھا اور محمول محرم تھا اور حامل نے محمول کے طواف کی نیت کی تھی اور محمول نے بھی اپنے طواف کی نیت کی تو محمول کا طواف ہوجائے گا۔ (2) حامل محرم تھا اور محمول محرم نہ تھا اور حامل نے اپنے طواف کی نیت کی تو اس کا طواف باتفاق ائمہ صحیح ہوگا۔ (3) حامل و محمول دونوں محرم تھے اور حامل نے محمول کے طواف کی نیت کی تو صرف محمول کا طواف ہوجائے گا اور اگر اپنے طواف کی نیت کی تو اس کا طواف ہوجائے گا اور اگر دونوں کے طواف کی نیت کی تو امام شافعی کے نزدیک صرف حامل کا طواف ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک محرم حامل نے اگر اپنے طواف کی نیت کی یا اپنے ساتھ محمول کی بھی نیت کی اور محمول نے اپنے طواف کی نیت کی تو دونوں کا طواف ہوجائے گا کیونکہ دونوں کی اپنی اپنی جگہ نیت درست ہے دونوں کی نیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ مسئلہ شرائطِ طواف میں سے حدث اکبر و اصغر سے طہارت بھی شرط ہے اور بدن۔ لباس اور جگہ کی طہارت بھی لازم ہے اور جمہور کے نزدیک ستّر عورت بھی لازم ہے حضرت عائشہ ؓ کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ مکہ میں داخل ہو کر رسول اللہ ﷺ نے پہلے وضو کیا پھر طواف کیا اور یہ بھی فرمایا مجھ سے حج کے طریقے سیکھو۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا حائضہ ہونے کی حالت میں میں مکہ میں آئی حضور ﷺ نے فرمایا ‘ جو کام حاجی کرتے ہیں تم بھی کرنا البتہ جب تک طہارت نہ ہوجائے کعبہ کا طواف نہ کرنا۔ (صحیحین) مسلم کی روایت میں آیا ہے جب تک غسل نہ کرو (طواف نہ کرنا) ۔ حضرت عائشہ ؓ راوی ہیں کہ مکہ سے روانگی کے دن صفیہ کو حیض شروع ہوگیا اس حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کیا اس نے قربانی کے دن طواف (زیارت) کرلیا عرض کیا گیا جی ہاں فرمایا تو روانہ ہوجاؤ۔ (صحیحین) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان ہے حج وداع سے پہلے جس حج کا امیر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ : کو بنا کر بھیجا تھا اسی حج کے موقع پر قربانی کے دن حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے لوگوں میں یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی ننگا (ہو کر) طواف کرے گا۔ (اس حدیث سے ستّر عورت کا ضروری ہونا ثابت ہو رہا ہے) ۔ اللہ نے فرمایا ہے ( طَہِّرْ بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ ) میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک کرو۔ اس عبارت سے تطہیر مکان کی ضرورت صراحۃً ثابت ہو رہی ہے اور لباس و جسم کی تطہیر کا حکم دلالتہً بطریق اولیٰ معلوم ہو رہا ہے ‘ خصوصاً حدث اکبر و اصغر سے طہارت کا تو بدرجۂ اولیٰ مستفاد ہو رہا ہے کیونکہ نجاست حقیقیہ سے حدث (یعنی نجاست حکمیہ) کا مرتبہ زیادہ اہم ہے بعض صورتوں میں نجاست کے ساتھ نماز ہوسکتی ہے اور بےوضو نماز ناجائز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا اور فرمایا طَہِرَّ بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَعِ السُّجُوْد اس آیت کو صلوٰۃ سے پہلے ذکر کیا ‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا طواف نماز کی طرح ہے صرف اتنی بات ہے کہ طواف میں بولنا جائز قرار دیا ہے اور نماز میں بولنے کی ممانعت ہے۔ پس جو شخص طواف میں بات کرے وہ نیک بات کرے۔ رواہ الحاکم فی المستدرک وصححہ والطبرانی والبیہقی۔ ترمذی ‘ حاکم ‘ دارقطنی ‘ ابن خزیمہ ‘ ابن حبان اور بیہقی نے حدیث ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے۔ بیت اللہ کا طواف نماز ہے صرف یہ بات ہے کہ اس میں اللہ نے کلام کو مباح کردیا ہے۔ اس روایت کو ابن سکن نے صحیح کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نجاست حقیقیہ سے طہارت سنت ہے اور نجاست حکمیہ (حدث) سے طہارت واجب ہے اور ستر عورت بھی واجب ہے اس کو ترک کرنے سے گناہگار ہوگا۔ اگر برہنگی یا جنابت کی حالت میں طواف فرض کیا ہوگا تو ایک بدنہ (اونٹ ‘ گائے) کی قربانی کرنا واجب ہوگی اور اگر بےوضو طواف فرض کیا ہے تو کوئی سی ایک قربانی لازم ہوگی (خواہ بکری کی ہی ہو) اسی طرح طواف غیر فرض اگر جنابت یا برہنگی کی حالت میں کیا ہے تو کوئی سی قربانی دینی ہوگی (چھوٹی ہو یا بڑی) اور اگر غیر فرض طواف بےوضو کیا ہے تو نصف صاع گیہوں کسی مسکین کو بطور کفارہ دینا ہوں گے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مذکورہ بالا اشیاء میں سے کوئی چیز بھی طواف کے لئے لازمی شرط نہیں ہے کیونکہ قرآن میں مطلق طواف کا حکم آیا ہے اور کتاب اللہ پر زیادتی کا معنی ہے حکم کتاب کو منسوخ کردینا اور اخبار احاد سے کتاب کا حکم منسوخ کردینا امام صاحب کے نزدیک جائز نہیں اس لئے ہم کسی شرط کو فرض لازمی نہیں قرار دے سکتے ہاں احادیث احاد پر عمل کرنا واجب ہے اس لئے مذکورہ امور بعض صورتوں میں واجب ہیں۔ مسئلہ طواف زیارت کی ایک ضروری شرط وقت بھی ہے مقررہ وقت سے پہلے ادا نہیں کیا جاسکتا اور بعد از وقت بالاجماع قضا ضروری ہے اگر خود اپنی کوتاہی کی وجہ سے طواف زیارت کو وقت مقرر کے بعد ادا کیا تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک قربانی واجب ہے جمہور کا مسلک اس کے خلاف ہے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے مؤخر کرنا پڑگیا جیسے حیض یا جابر طاقت کی طرف سے بندش وغیرہ تو قربانی واجب نہیں۔ امام صاحب کے نزدیک طواف زیارت کا وقت قربانی کے دن کی فجر صادق سے شروع ہوتا ہے اور جمہور کے نزدیک یوم النحر کی آدھی رات سے شروع ہوجاتا ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ : کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے شب نحر میں بھیج دیا تھا ‘ میں نے فجر سے پہلے رمی جمرہ کی پھر جا کر طواف زیارت کیا ‘ رواہ الدارقطنی۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے سلسلہ میں ضحاک بن عثمان راوی شامل ہے اور قطان نے اس کو نرم قرار دیا ہے۔ پھر یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کے بھی خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے متعلقین میں کمزور طبقہ کو پہلے سے بھیج دیا تھا اور یہ فرما دیا تھا کہ سورج نکلنے سے پہلے رمی جمرات نہ کرنا۔ رواہ الترمذی وصححہ۔ ابو داؤد۔ نسائی۔ طحاوی اور ابن حبان نے حسن غربی کے طریق اس کو بیان کیا ہے اور یہ سلسلۂ روایت حسن ہے ترمذی اور طحاوی نے بھی اس کی تخریج کی ہے۔ ابو داؤد ‘ نسائی ‘ طحاوی اور ابن حبان نے مختلف طریقوں سے اس کو نقل کیا ہے بعض طرق کی تائید بعض سے ہو کر حدیث میں قوت آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں فرصت الجمرۃ کے بعد ثم مضت فافاضت آیا ہے۔ یعنی رمی جمرہ تو فجر سے پہلے کرلی اس کے (کچھ دیر) بعد جا کر طواف افاضہ (طواف زیارت) کیا۔ اس میں کوئی ثبوت نہیں کہ طواف بھی طلوع فجر سے پہلے کیا (بلکہ ثم کا لفظ تو بظاہر اس امر کا قرینہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد طواف کیا) ۔ طواف زیارت کا آخری وقت ایام تشریق کے دوسرے روز غروب آفتاب تک ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) : کا قول ہے ‘ بعض روایات میں آیا ہے کہ انتہائی وقت یوم النحر کے غروب تک ہے۔ سورة براءت کی آیت (وَاَذَانٌ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلَی النَّاسِ یَوْم الْحَجِّ الْاَکْبَرِ ) کی تفسیر میں ہم نے بیان کردیا ہے کہ جمہور کے نزدیک طواف زیارت کا وقت صرف یوم النحر ہے حضرت ابن عمر ؓ کی مرفوع حدیث اسی مضمون کی ابو داؤد اور حاکم نے بیان کی ہے حضرت علی ؓ : کا بھی یہی قول روایت میں آیا ہے۔ ابن جریج نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ یوم الحج الاکبر منیٰ کے تمام ایام ہیں (یعنی صرف یوم النحر ہی مراد نہیں ہے) سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ سفیان نے یہ بھی فرمایا کہ یوم بمعنی وقت اور مدت کے آتا ہے۔ جیسے یوم صفین ‘ یوم الجمل ‘ یوم بعاث ان الفاظ میں یوم سے مراد پوری مدت ہے۔ مسئلہ طواف کی ایک شرط امام مالک امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک ترتیب بھی ہے امام محمد کا بھی یہی قول ہے ‘ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ترتیب شرط نہیں (یعنی فرض نہیں) اکثر حنفیہ کے خیال میں سنت ہے جس کا ترک مکروہ ہے ‘ صحیح بات یہ ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ترتیب واجب ہے جس کے ترک سے قربانی واجب ہوجاتی ہے رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اس ترتیب پر عمل کیا اور یہ بھی فرما دیا مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھو اگر ترتیب کو شرط ‘ فرض کہا جائے گا تو کتاب پر زیادتی لازم آئے گی۔ ترتیب کی صورت یہ ہے کہ حجر اسود کے پاس پہنچ کر سامنے کو رخ کر کے طواف شروع کرے پورا حجر اسود دائیں ہاتھ کو ہو اور بیت اللہ بائیں ہاتھ کو اس کے برعکس کرنا ناجائز ہے۔ مسئلہ علماء کا اتفاق ہے کہ طواف مسجد کے اندر کرے مسجد کے گرداگرد نہ کرے یہی طریقہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے متواتر چلا آیا ہے اگر کوئی مسجد کے گرداگرد طواف کرے تو اس کو طواف بیت اللہ نہیں کہا جاتا طواف مسجد کہا جاتا ہے حرف و محاروہ کی یہی شہادت ہے پس مسجد کے اندر جا کر طواف کرے۔
Top