Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
کیا اللہ کے دین کے علاوہ کوئی دین تلاش کرتے ہیں، حالانکہ وہ سب اس کے فرمانبر دار ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اسی کی طرف سب واپس ہوں گے
دین اسلام ہی اللہ کے نزدیک معتبر ہے جو دین اللہ نے اپنی مخلوق کے لیے پسند فرمایا ہے وہ دین اسلام ہے جیسا کہ سورة آل عمران کے دوسرے رکوع میں فرمایا (اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ ) (بےشک دین جو معتبر ہے اللہ کے نزدیک وہ اسلام ہی ہے) اور سورة مائدہ میں فرمایا (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) (آج میں نے تمہارے لیے دین مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام مکمل کردیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا) اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا نام اسلام رکھا ہے جس کا معنی فرمانبر دار ہونے کا ہے۔ ساری مخلوق اللہ کی فرمانبر دار ہے اور ہمیشہ سے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا دین اسلام ہی تھا یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبر داری کی دعوت دی جس کا طریقہ اللہ کی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ معلوم ہوتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم اور اسمعٰیل (علیہ السلام) جب کعبہ شریف بنا رہے تھے تو اس وقت انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ہم کو تو اپنا فرمانبر دار بنا اور ہماری ذریت میں سے ایک امت مسلمہ پیدا فرمانا۔ ان کی دعا اللہ نے قبول فرمائی اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور امت مسلمہ پیدا فرمایا جو امت محمدیہ ہے۔ دین اسلام میں سراپا خالق اور مالک کی فرمانبر داری ہے۔ بندہ کا کام ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے ظاہر و باطن سے جسم و جان سے جھک جائے اور ہر حکم کو مانے سارے فرشتوں کا دین اور ان کے علاوہ ساری مخلوق اور جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے سب کا دین اسلام ہے۔ مخلوق میں انسان اور جنات بھی ہیں اللہ پاک کی طرف سے ان کے لیے بھی دین اسلام ہی کو پسند فرمایا ہے۔ لیکن چونکہ ان دونوں قوموں کا ابتلاء بھی مقصود ہے اس لیے ان کو مجبور نہیں کیا گیا کہ اسلام ہی کو اختیار کریں اسی وجہ سے ان میں بہت سے کافر اور بہت سے مومن ہیں (خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) البتہ تکوینی طور پر یہ دونوں بھی وہی کرتے ہیں جو اللہ کی قضاو قدر کا فیصلہ ہوتا ہے مجبوراً قضاو قدر کے فیصلے کے مطابق ہی جیتے اور مرتے ہیں۔ ان دونوں قوموں کو بتادیا ہے کہ ایمان کی جزاء یہ ہے اور کفر کی سزا یہ ہے۔ اب اپنے اختیار سے دوزخ یا جہنم کی تیاری کرتے ہیں۔ (وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا للظّٰلِمِیْنَ نَارًا) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) مسلم تھے۔ اللہ کے فرمانبر دار تھے اپنی امتوں کو بھی انہوں نے اسی کی دعوت دی اسی لیے فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ اعلان فرما دیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کتاب پر بھی جو ہم پر نازل کی گئی اور ان چیزوں پر جو ابراہیم، اسمعٰیل، اسحاق یعقوب اور یعقوب کی اولاد پر نازل کی گئیں اور اس پر جو موسیٰ اور عیسیٰ اور تمام نبیوں ( علیہ السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ان سب پر بھی ایمان لائے۔ ان حضرات میں سے ہم کسی کے درمیان بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے فرمانبر دار ہیں۔ کیونکہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا دین ایک ہی ہے اس لیے ہم سبھی پر ایمان لاتے ہیں جو احکام ان پر نازل ہوئے ہم ان پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ بھی اللہ کی طرف سے ہیں۔ یہ سب حضرات اللہ کے فرمانبر دار ہیں (لفظ النبیون) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کو شامل ہے پھر بھی بعض انبیاء (علیہ السلام) کا خصوصی تذکرہ فرما دیا کیونکہ یہود و نصاریٰ ان حضرات کو جانتے اور مانتے تھے۔ طوعاً و کرھاً کی تفسیر : طوعاً وکرھاً کی تفسیر بتاتے ہوئے مفسرابن کثیر لکھتے ہیں صفحہ 379: ج 1۔ اما من فی السموٰت فالملائکۃ و اما من فی الارض فمن ولد علی الاسلام و اما کرھا فمن اتی بہ من سبایا الامم فی السلاسل والا غلال یقادون الی الجنۃ و ھم کارھون۔” یعنی آسمانوں میں فرشتے اور زمین میں وہ لوگ ہیں جو اسلام پر پیدا ہوئے یہ بخوشی اسلام پر چلتے ہیں اور ناخوشی سے چلنے والے وہ لوگ ہیں جن کو زنجیروں میں اور بیڑیوں میں قید کرکے لایا گیا۔ (اس وقت وہ کافر تھے) بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا یہ قید کرکے لانا ان کے جنت میں جانے کا سبب بن گیا جس وقت کیے گئے تھے ان کو ناگوار تھا) صاحب روح المعانی نے کرھاً کا ایک معنی بتاتے ہوئے لکھا ہے ما کان حاصلا بالسیف و معاینۃ ما یلجئ الی الاسلام یعنی اہل اسلام کی تلواروں کی وجہ سے اور ان چیزوں کی وجہ سے اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئے جنہوں نے اضطراری طور پر اسلام کے لیے آمادہ کردیا۔ پھر اس کے علاوہ ایک اور قول بھی لکھا ہے وہ ان کو خود ہی پسند نہیں آیا۔ پھر صوفیہ سے ایک قول نقل کیا کہ طوعًا کا معنی یہ ہے کسی ظلمت نفسانیہ کے بغیر اللہ کے احکام کو مان لیا اور انانیت کا کوئی پردہ حائل نہیں ہوا۔ اور کرھاً کا معنی یہ ہے کہ وساوس پیش آگئے اور پردے حائل ہوگئے۔ پھر لکھتے ہیں کہ طوعاً کا مصداق حضرات ملائکہ اور بعض ان حضرات کا اسلام ہے جو اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں زمین میں رہتے ہیں اور دوسرا اسلام ان لوگوں کا ہے جن کو شکوک پیش آتے رہتے ہیں، پھر لکھتے ہیں کہ کفار قسم ثانی سے ہیں کیونکہ انہوں نے خالق کو تو مانا لیکن ظلمات نفسانیہ کی وجہ سے خالق جل مجدہ کے ساتھ انہوں نے شرک شروع کردیا۔ ان کا ایمان شرک میں ملا ہوا ہے جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آسمان اور زمین کس نے پید کیا تو کہتے ہیں اللہ نے پیدا کیا۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ طوعاً و کرھاً کی تفسیر مجاہد (تابعی) کے کلام سے بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ اس تفسیر سے اطمینان نہیں ہوتا کیونکہ دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں جو بالکل ہی خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ خالق اور صانع کے منکر ہیں۔ اور من کا عموم سامنے رکھا جائے تو ابن کثیر کی بات بھی عام اور تام نہیں ہوتی۔ اس لیے احقر نے وہ تفسیر کی ہے جو اوپر مذکور ہے جس میں کرھاً کا معنی اللہ کی قضا اور قدر کے تابع ہونا اور تکوینی طور پر اس کے فیصلوں کے مطابق چلنا اختیار کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تکوینی طور پر سب اسی کی قضا اور قدر کے مطابق مرتے اور جیتے ہو تو جو دین تشریعی طور پر اس نے تمہارے لیے بھیجا ہے اسے بھی اختیار کرو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top