Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
پھر کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین چھوڑ کر کوئی راہ ڈھونڈ نکالیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین میں جو کچھ بھی موجود ہے خوشی سے یا ناخوشی سے سب اس کے حکم کے فرمانبردار ہیں اور سب اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں
دین الٰہی یعنی اسلام میانہ روی سکھاتا ہے : 169: کیا وہ اللہ کے دین سے بغاوت چاہتے ہیں ؟ بغا کے معنی میانہ روی سے تجاوز کرنے کی خواہش کرنے کے ہیں۔ جس کا صف صاف مطلب یہ ہے کہ دین الٰہی یعنی اسلام میانہ روی سکھاتا ہے اور جو اس کو چھوڑ کر کچھ اور چاہتا ہے وہ میانہ روی سے تجاوز کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح اسلم اسلام کے اصلی معنی فرمانبرداری کرنے کے ہیں اور یہی وسیع معنی یہاں مراد لیے گئے ہیں جیسا کہ تم مخلوق ارض و سماء کی طرف اَسْلَمَ منسوب کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ” طوعًا وَّکَرْھًا “ دونوں مصدر ہیں جو حال کی جگہ استعمال ہوئے ہیں یعنی مراد ان سے طائفین و کا رمنی ہیں اور ” طوع “ کے معنی ہیں فرمانبرداری اختیار کرنا یعنی رضا ورغبت سے اور ” کرہ “ اس کی ضد ہے۔ اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کی طرف بھی اس سے اشارہ ہے کیونکہ اسلام ہی وہ دین ہے جو تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا موعود دین ہے اس لیے وہ ساری نسل انسانی کا مذہب ہے اور یہی اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اپنی حقیقت میں کل عالم کا مذہب ہے پھر یہ کہ زمین میں صرف انسانوں ہی کا نہیں بلکہ جو آسمان و زمین میں ہے سب اس کے فرمانبردار ہیں اور یہ بھی کہ مذہب کے رنگ میں قوانین اسلام یعنی شریعت اسلامی کی فرمانبرداری کا نام اسلام ہے اور عام رنگ میں قوانین الٰہی کی فرمانبرداری بھی اسلام ہی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اسلام جمیع مخلوقات کا مذہب ہے کیونکہ اس وسیع عالم میں جو چیز قوانین الٰہی کی فرمانبرداری نہ کرے گی اس کا وجود دہی نہیں رہ سکتا اور بالفاظ دیگر ہر شے کا وجود ہی قوانین کی فرمانبرداری پر ہے۔ پس حقیقی معنی میں اسلام ہی عالمگیر مذہب ہے کیونکہ چھوٹے سے چھوٹے ذرہ سے لے کر بڑے سے بڑے کرہ ارضی یا سماوی تک سب اللہ قوانین کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں اور کوئی چیز اس کی فرمانبرداری سے باہر نہیں۔ طوعا وَّکَرْھَا سے یہ بھی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ خواہ کچھ ہو کوئی چیز قانون الٰہی کی فرمانبرداری سے باہر نہیں نکل سکتی کیونکہ فرمانبرداری تو طوعا ہی ہوتی ہے یعنی اپنی رضا ورغبت سے لیکن اگر ان چیزوں کو اختیار ہوتا فرمانبرداری کریں یا نہ کریں اور اپنی رضاء ورغبت سے وہ فرمانبرداری نہ کرتیں تو ” کَرْمًا “ بھی ان کو فرمانبرداری اختیار کرنا ہی پڑتی یا طَوْعًا وَّکَرْھًا میں دو قسم کی فرمانبرداری کا ذکر ہے ایک تو وہ چیزیں ہیں جن کی خواہش فرمانبرداری کے خلاف ہو ہی نہیں سکتی جیسے فرشتے یعنی ملائکہ یا خود زمین و آسمان اور اس کی طاقتیں جیسا کہ اَتَیْنَا طَائِفَیْنَ (حم السجدہ : 11:41) سے ظاہر ہے۔ طبعی امور میں انسان بھی اس طرح فرمانبرداری اختیار کرتا ہے مگر وہ امور جن کا تعلق اختیار اور ارادہ سے ہے ان میں ” کرہ “ بمعنی مشقت کے ساتھ فرمانبرداری ہے یعنی اس کام کو انسان طبعاً نہیں کرتا بلکہ مشقت اس کے لیے درکار ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” کَرِہَ “ بمعن ناخوشی سے اس طرح فرمانبرداری ہے کہ کافر جب خوشی سے ان قوانین کی فرمانبرداری نہیں کرتا تو ناخوشی سے بھی اس کو کرنا پڑتی ہے کیونکہ ایسے قوانین میں فرمانبرداری دو طرح پر ہے جو شخص ان قوانین پر چلتا ہے وہ سکھ پاتا ہے جو نہیں چلتا وہ دکھ اٹھاتا ہے پس جس نے قانون کی فرمانبرداری طَوْعًا نہ کی اس کو کَرْھًا یعنی دکھ اور سزا کے رنگ میں کرنی پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے مفسرین اسلام نے طَوْعًا فرمانبرداری مومن کے لیے اور کَرْھَا کافر کے لیے قرار دی ہے۔ اس کو مختصراً اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کا دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس کے ٹھہرائے ہوئے قوانین فطرت کی اطاعت ہے اور آسمان و زمین میں جس قدر مخلوق ہے سب قوانین الٰہی کی اطاعت کر رہی ہے پھر اگر تمہیں اللہ کے قانون فطرت سے انکار ہے تو اللہ کے قانون کے سوا کائنات ہستی میں اور کوئی قانون ہو سکتا ہے ؟ کیا تمہیں اس راہ پر چلنے سے انکار ہے جس پر تمام کارخانہ ہستی چل رہا ہے ؟
Top